کتاب: تاریخ اسلام جلد اول (اکبر شاہ) - صفحہ 221
کی جائے، بعض صحابہ رضی اللہ عنہم نے ابھی ہتھیار بھی نہیں کھولے تھے، یہ حکم سنتے ہی اسی طرح بنو قریظہ کی طرف روانہ ہو گئے۔[1] بنو قریظہ کی بدعہدی کا حشر: سیّدنا سعد بن معاذ رضی اللہ عنہ جو غزوۂ خندق کے زمانہ میں بنو قریظہ کو سمجھا بجھا کر راہ راست پر رکھنے کے لیے بنو قریظہ کے پاس ان کے قلعہ میں بھیجے گئے تھے اور بنو قریظہ نے نہایت درشتی اور سختی کے ساتھ ان کو ناکام واپس بھیجا تھا، بنو قریظہ کے ہم عہد اور ان کی قوم سے محبت کا تعلق رکھتے تھے، وہ جنگ خندق کے زمانہ میں تیر سے زخمی ہو گئے تھے، ان کو اجازت دی گئی تھی کہ وہ مسجد نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کے اندر خیمہ میں رہیں اس لیے وہ بنو قریظہ کے محلے کی طرف مجاہدین اسلام کے ساتھ نہیں جا سکے تھے، سیّدنا علی رضی اللہ عنہ کو آپ نے علم سپرد کیا اور مقدمۃ الجیش کے طور پر آگے روانہ کیا، مدینہ میں ابن ام مکتوم کو بدستور عامل رہنے دیا، سیّدنا علی رضی اللہ عنہ جب بنو قریظہ کے قلعہ کے قریب پہنچے تو انہوں نے سنا کہ بنو قریظہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو (نعوذ باللہ) گالیاں دے رہے تھے، غرض شام تک بلکہ نماز عشاء کے وقت تک صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی آمد کا سلسلہ جاری رہا، جن لوگوں کو کسی وجہ سے روانگی میں دیر لگی اور وہ عشاء کے وقت پہنچے انہوں نے بھی نماز عصر بنو قریظہ کے محلے میں پہنچ کر عشاء کے وقت ہی ادا کی اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے اس فعل کو جائز رکھا، [2]بنو قریظہ کے قلعہ میں حیی بن اخطب بھی موجود تھا، جب ابوسفیان اورکفار عرب جنگ خندق سے فرار ہوئے تو حیی بن اخطب بنو قریظہ کے قلعہ میں چلا آیا تھا اس نے ان کو مسلمانوں سے لڑنے اور مقابلہ کرنے پر خوب آمادہ کیا، مسلمانوں نے بنوقریظہ کے قلعہ کا محاصرہ کر لیا تھا، یہ محاصرہ پچیس روز تک قائم رہا۔ بنو قریظہ کا سردار کعب بن اسد تھا، حیی بن اخطب بھی بنو قریظہ کے ساتھ محصور تھا،کعب بن اسد نے جب دیکھا کہ مسلمانوں کا مقابلہ میری قوم سے نہیں ہو سکتا تو اس نے اپنی قوم کو ایک جگہ جمع کر کے کہا کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم ہونے میں تو شک نہیں ، کیونکہ ان کے متعلق ہماری آسمانی کتاب توریت میں پیش گوئیاں صاف صاف موجود ہیں اور یہ وہی نبی صلی اللہ علیہ وسلم ہیں جن کے ہم منتظر تھے، پس مناسب معلوم ہوتا ہے کہ ہم سب ان کی تصدیق کریں اور اپنے جان و مال و اولاد کو محفوظ کر لیں ، بنوقریظہ نے اس مشورہ کی مخالفت کی اور مسلمان ہونے سے انکارکیا، اس کے بعد کعب بن اسد نے کہا دوسرا مشورہ میرا یہ
[1] صحیح بخاری، کتاب المغازی، حدیث ۴۱۱۹۔ صحیح مسلم، کتاب الجھاد باب جواز قتال من نقض العھد۔ [2] صحیح بخاری، کتاب المغازی، حدیث ۴۱۱۹۔ صحیح مسلم، کتاب الجھاد باب جواز قتال من نقض العھد۔