کتاب: تاریخ اسلام جلد اول (اکبر شاہ) - صفحہ 220
بنی قریظہ کا اندیشہ، منافقوں کا خطرہ، کفار کی کثرت، مسلمانوں کی قلت، ان تمام حالات میں مسلمانوں نے جس عزم و ہمت اور ثبات قدم کا نمونہ دکھایا اس کا اندازہ اس سے ہو سکتا ہے کہ مسلمانوں نے جب ان کے سامنے ایسی تجویز پیش ہوئی کہ دب کر صلح کر لیں تو صاف انکار کر دیا۔ اس حالت میں بھی سعید روحیں کھینچ کھینچ کر آتی اور اسلام میں داخل ہوتی رہیں ، چنانچہ ایک شخص نعیم بن مسعود بن عامر قبیلہ غطفان کے لشکر سے نکل کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور اسلام قبول کیا۔
انہوں نے مسلمان ہونے کے بعد عرض کیا کہ میں بنی قریظہ اور لشکر کفار میں پھوٹ ڈلوائے دیتا ہوں …چنانچہ وہ اوّل بنو قریظہ کے پاس گئے، پھر ابوسفیان کے پاس گئے اور ایسی باتیں کیں جس سے بنو قریظہ اور قریش دونوں نے ایک دوسرے سے اپنا اپنا اطمینان چاہا، اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ بنو قریظہ کفار کے حسب منشاء علانیہ کوئی جنگی حرکت سے باز رہے، نعیم بن مسعود رضی اللہ عنہ نے دونوں جگہ اپنے مسلمان ہونے کا اعلان نہیں کیا تھا، اس لیے ان کی باتیں طرفین کے لیے قابل توجہ ہوئیں ۔[1]
جب محاصرہ کو ستائیس روز گزر گئے تو ایک روز رات کو تیز و تند ہوا چلی، خیموں کی میخیں اکھڑ گئیں ، چولہوں پر دیگچیاں گر گئیں ۔
﴿فَاَرْسَلْنَا عَلَیْہِمْ رِیْحًا وَّ جُنُوْدًا لَّمْ تَرَوْہَا﴾ (الاحزاب : ۳۳/۹)
’’ہم نے ان پر ہوا بھیجی اورایک ایسا لشکر بھیجا جس کو تم نہیں دیکھ سکتے تھے۔‘‘
اس ہوا اور جھکڑنے بڑا کام کیا، جا بجا ڈیروں میں آگ گل ہو گئی، مشرکوں نے آگ کے بجھنے کو بدشگونی سمجھا اور راتوں رات اپنے ڈیرے خیمے اٹھا کر فرار ہو گئے۔
کفار کے فرار ہونے کی خبر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو خدائے تعالیٰ کی طرف سے دی گئی اسی وقت آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سیّدنا حذیفہ بن الیمان رضی اللہ عنہ کو خبر لانے کے لیے بھیجا، انہوں نے آ کر سنایا کہ کفار کا لشکر گاہ خالی پڑا ہے اور وہ بھاگ گئے، [2]آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اب کفار قریش ہم پر کبھی حملہ آور نہ ہوں گے، مسلمان خوشی خوشی مدینے میں داخل ہوئے، یہ واقعہ ماہ ذیقعدہ ۵ ھ میں وقوع پذیر ہوا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم جب کفار کے مقابلے پر مدینہ کے باہر خندق کے اس طرف قیام فرما تھے تو مدینہ میں ابن ام مکتوم رضی اللہ عنہ کو عامل بنا گئے تھے، مدینہ میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے واپس آکر بہت ہی تھوڑی دیر قیام فرمایا، اور ظہر کی نماز ادا فرما کر حکم دیا کہ عصر کی نماز یہاں کوئی آدمی نہ پڑھے بلکہ عصر کی نماز بنی قریظہ کے محلہ میں ادا
[1] اور ان میں پھوٹ پڑ گئی اور یہ بات مسلمانوں کے عین حق میں گئی … تفصیل کے لیے ملاحظہ ہو : سیرت ابن ہشام ص ۴۱۸، ۴۱۹۔
[2] صحیح مسلم، کتاب الجھاد، باب غزوۃ الاحزاب۔