کتاب: تاریخ اسلام جلد اول (اکبر شاہ) - صفحہ 22
ایران والوں کا فرض تھا کہ وہ شست و خشور زرتشت کے ارشادات کے موافق کسی رہبر کی تلاش میں نکلتے، یہودیوں کے لیے وقت آ گیا تھا کہ وہ فاران کے پہاڑوں کی چوٹیوں سے روشنی کے نمودار ہونے کا انتظار کرتے اور معماروں کے رد کیے ہوئے پتھر کو کونے کا پتھر بنتے ہوئے دیکھ کر ضد اور انکار سے باز رہتے۔ عیسائیوں کا فرض تھا کہ وہ دعائے خلیل اور نوید مسیحا کو اپنی امید گاہ بناتے۔ لیکن دنیا کے عالمگیر فساد اور زمانہ کی ہمہ گیر تاریکی نے دلوں کو اس قدر سیاہ اور آنکھوں کو اس قدر بے بصارت بنا دیا تھا کہ کسی کو اتنا بھی ہوش نہ تھا کہ اپنے آپ کو مریض جانتا اور دوا کی طلب میں قدم اٹھاتا۔ ایسے زمانے اور ملک عرب جیسے خطے میں ہادی برحق رسول رب العالمین خیر البشر، شفیع المذنبین سیّدنا محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے شرک کی خباثت، بت پرستی کی تاریکی، فتنہ و فساد کی نجاست اور عصیان و بے شرمی کی پلیدی کو دور کرنے کے لیے ’’لا الٰہ الا اللہ‘‘ کی آواز بلند کر کے انسان نما لوگوں کو انسان، انسانوں کو بااخلاق انسان اور با اخلاق انسانوں کو با خدا انسان بنا کر دنیا کی تاریکی و ظلمت کو ہدایت، نور ، امن، راستی اور نیکی سے تبدیلی کرنے، یعنی گمراہ، بت پرست، عصیاں شعار لوگوں کو مسلمان بنانے کا فریضہ انجام دیا۔ سیدنا نوح علیہ السلام عراق عرب کے گمراہ لوگوں کو راہ راست پر لانے میں سیکڑ وں برس مصروف تبلیغ رہ کر بالآخر ﴿رَبِّ لاَ تَذَرْ عَلَی الْاَرْضِ مِنَ الْکٰفِرِیْنَ دَیَّارًا﴾ (’’ان کافروں میں سے کوئی زمین پر بسنے والا نہ چھوڑا‘‘ (نوح : ۷۱ / ۲۶)) کی تلوار سے سب کا قصہ پاک کرنے پر مجبور ہوئے۔ سیّدنا موسیٰ علیہ السلام نے مصریوں اور ان کے متکبر بادشاہ کو راہ راست پر لانے کی امکانی کوشش کی لیکن بالآخر موسیٰ علیہ السلام اور بنی اسرائیل نے وہ نظارہ دیکھا جس کی نسبت ارشاد ہے کہ : ﴿وَ اَغْرَقْنَآ اٰلَ فِرْعَوْنَ وَ اَنْتُمْ تَنْظُرُوْنَ﴾ (’’پھر تمہاری آنکھوں کے سامنے فرعونیوں کو غرقاب کر دیا۔‘‘ (البقرۃ : ۲ /۵۰)) ہندوستان میں مہاراجہ رام چندر جی کو لنکا پر چڑھائی اور راکھشسوں سے لڑائی کرنی پڑی شری کرشن مہاراج کو کرکشتر کے میدان میں ارجن کو جنگ پر آمادہ کرنا اور کوروں کی نافرمان جماعت کو پانڈوں کے ہاتھوں برباد کرانا پڑا، ایران میں زرتشت نے اسفند یار کی پہلوانی اور سلطنت کیانی کی حکمرانی کو ذریعہ، تبلیغ و اشاعت بنایا۔ مگر ماضی کے صحائف اور عمرانی روایات جو اہل نظر تک پہنچی ہیں سب کی سب متفق ہیں کہ تمام قابل تکریم بانیاں مذاہب اور مستحق احترام ہادیان صداقت کی کوششوں اور کامیابیوں میں یہ نظیر ہرگز تلاش نہیں کی جا سکتی کہ پچیس سال سے کم مدت میں دنیا کا بہترین ملک اور عرب کے جاہل وحشی لوگ ساری دنیا کے معلم اور سب سے زیادہ مہذب و با اخلاق بن گئے ہوں ، سو برس سے کم یعنی صرف اسی