کتاب: تاریخ اسلام جلد اول (اکبر شاہ) - صفحہ 218
فارسی رضی اللہ عنہ نے مشورہ دیا کہ حملہ آور فوج سے محفوظ رہنے کے لیے محصور فوج کے گرد خندق کھودی جائے، عرب لوگ اس خندق کھودنے کی ترکیب سے ناواقف تھے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سیّدنا سلمان فارسی رضی اللہ عنہ کی اس تجویز کو پسند کیا، ایک طرف پہاڑیاں تھیں ، ایک طرف مدینہ منورہ کے مکانات کی دیواریں فصیل کی قائم قامی کر رہی تھیں ، جو سمت کھلی ہوئی تھی اور جس طرف سے دشمن کا حملہ ہو سکتا تھا اس طرف خندق کی کھدائی کا کام شروع کر دیا گیا، سلسلہ کوہ اور خندق کے درمیان ایک بیضوی شکل کا میدان بن گیا، یہی گویا مسلمانوں کا قلعہ تھا، اس کے وسط رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا خیمہ تھا، خندق پانچ گز چوڑی اور پانچ گز گہری کھودی گئی، خندق کی کل لمبائی کے مساوی حصے کر کے دس دس آدمیوں کو ایک ایک حصہ کھودنے کے لیے دیا گیا، خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بھی ایک حصہ کی کھدائی میں شامل اور خندق کھودنے میں مصروف تھے، اس خندق میں ایک جگہ بڑا اور سخت پتھر آگیا، سب زور آزمائی کر چکے اور پتھر نہ ٹوٹا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں عرض کیا گیا کہ خندق کو اس جگہ سے پھیر کر اور دوسری طرف موڑ کر کھود لینے کی اجازت دی جائے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم جس جگہ خندق کھودنے میں مصروف تھے وہاں سے اپنا پھاؤڑا لے کر چلے، اس پتھر والے حصے میں پہنچ کر اور خندق میں اتر کر اپنا پھاؤڑا یا کدال اس زور سے مارا کہ پتھر میں شگاف پڑ گیا،[1] ساتھ ہی ایک روشنی نکلی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اللہ اکبر کہا، سب صحابہ رضی اللہ عنہم نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی تقلید میں نعرہ اللہ اکبر بلند کیا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ مجھ کو ملک شام کی کنجیاں دی گئیں ، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دوسری ضرب اس پتھر پر لگائی، جس سے وہ اور بھی زیادہ پھٹ گیا، اس ضرب سے بھی روشنی نکلی اور اسی طرح نعرہ اللہ اکبر بلند ہوا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا مجھ کو ملک فارس کی کنجیاں دی گئیں ، تیسری ضرب میں پتھر ریزہ ریزہ ہو گیا اور اسی طرح روشنی نکلی، اللہ اکبر کا نعرہ بلند ہوا، اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ مجھ کو یمن کی کنجیاں دی گئیں ، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا مجھے جبرئیل امین نے خبر دی ہے کہ یہ تمام ملک تمہاری امت کے قبضے میں آ جائیں گے۔[2] اس جگہ غور کرنا چاہیے کہ چوبیس ہزار کفار کے جرار لشکر کے مقابلہ میں مٹی بھر مسلمان اپنی حفاظت اور جان بچانے کی تدبیروں میں مصروف ہیں ، تمام ملک عرب دشمنی پر تلا ہوا اور خون کا پیاسا ہے، بظاہر بربادی پیش نظر ہے …لیکن ایران، روم، اور یمن کے ملکوں کی سلطنت و حکومت کی خوش خبری سنائی جا رہی ہے، یہ کام اللہ تعالیٰ کے سوا کسی کا نہیں ہو سکتا اور اللہ تعالیٰ کے سواکوئی ایسی خبر نہیں دے سکتا۔ اسی حالت میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو خبر ملی کہ بنی قریظہ کے سردار کعب بن اسید نے بھی مسلمانوں کے
[1] اور وہ بہت بڑا پتھر یا چٹان ریزہ ریزہ ہو گئی۔ صحیح بخاری، کتاب المغازی، حدیث ۴۱۰۱ [2] سیرت ابن ہشام ص ۴۱۳۔