کتاب: تاریخ اسلام جلد اول (اکبر شاہ) - صفحہ 217
غزوۂ خندق اوپر کے بیان کردہ چند چھوٹی چھوٹی فوج گشتیاں اسی سلسلے میں ہوئیں ، بنی نضیر میں حیی بن اخطب سب سے بڑا مفسد اور شرارت پیشہ شخص تھا، وہ اور قبیلہ بنی نضیر کا بڑا حصہ خیبر میں مقیم ہوا، حیی بن اخطب، سلام بن ابی الحقیق، سلام بن مشکم اور کنانہ بن الربیع وغیرہ بنو نضیر کے سردار، اور ہود بن قیس و ابوعمارہ وغیرہ سرداران بنو وائل متحد ہو کر اوّل مکہ میں گئے، چندہ کی فہرست بھی کھولی چنانچہ قریش نے خوب بڑھ بڑھ کر مال و زر بھی مصارف جنگ کے لیے دیا، یہاں جب خوب جوش پیدا ہو چکا تو قریش مکہ سے مشورہ لے کر یہ لوگ قبائل غطفان میں گئے اور ان کو بھی اسی طرح مسلمانوں سے جنگ کے لیے برانگیختہ کرنے میں کامیاب ہوئے، قبائل بنو کنانہ بھی آمادہ ہو گئے۔ پھر ان یہودیوں کے ساتھ جو مدینہ میں ابھی تک سکونت پذیر تھے (یعنی بنو قریظہ) سازش کا سلسلہ جاری کیا گیا اور در پردہ ان سے مسلمانوں کے خلاف لڑنے اور ہر قسم کی کوشش کرنے کا معاہدہ کیا گیا ، حالانکہ بنو قریظہ ابھی تک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ہم عہد تھے، اور عہد نامہ کے موافق مسلمانوں کی امداد کرنا ان کا فرض تھا، بنو سلیم، فزارہ اشجع ، بنو سعد اور بنو مرہ وغیرہ قبائل، قریش اور بنو نضیر اور غطفان وغیرہ قبائل کے سرداروں نے جن کی تعداد پچاس سے کم نہ تھی خانہ کعبہ میں جا کر قسمیں کھائیں کہ جب تک زندہ ہیں مسلمانوں کی مخالفت سے منہ نہ موڑیں گے اور اسلام کی بیخ کنی میں کوئی دقیقہ فروگزاشت نہ ہونے دیں گے، گزشتہ تجربوں سے فائدہ اٹھا کر اس عظیم الشان سازش میں حد سے زیادہ احتیاط برتی گئی اور اس لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس مدینہ منورہ میں مخالفین اسلام کی اس سب سے بڑی سازش کی خبر وقت سے پہلے نہ پہنچ سکی۔ اوّل ابوسفیان قریش اور اپنے ہم عہد قبائل کا چار ہزار لشکر لے کر مکہ سے روانہ ہوا، مقام مرالظہران میں بنو سلیم کی فوج بھی آ کر مل گئی، اسی طرح تمام قبائل راستے میں آ آ کر اس لشکر میں شامل ہوتے گئے، بنو نضیر کا سردار حیی بن اخطب اور قبائل غطفان کا سردار عیینہ بن حصن تھا، تمام افواج کفار کا سپہ سالار اعظم ابوسفیان تھا۔مدینہ کے قریب پہنچ کر تمام حملہ آور فوج کی تعداد بروایت مختلف کم سے کم دس ہزار اور زیادہ سے زیادہ چوبیس ہزار تھی، اس لشکر اعظم میں ساڑھے چار ہزار اونٹ اور تین سو گھوڑے تھے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو جب اس لشکر گراں کے حملہ آور ہونے کا حال معلوم ہوا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجلس مشورت منعقد کی، یہ رائے قرار پائی کہ مدینہ کے اندر رہ کر ہی مدافعت کی جائے، سیّدنا سلمان