کتاب: تاریخ اسلام جلد اول (اکبر شاہ) - صفحہ 215
ہونے سے روک دیا اور کہا کہ تو منافق ہے اس لیے تجھ کو مدینہ میں داخل نہ ہونے دوں گا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو جب معلوم ہوا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے عبداللہ بن ابی کے متعلق حکم دیا کہ اس کو مدینہ میں آنے دو۔ اسیران جنگ کی رہائی: بنی المصطلق کے سردار حارث کی بیٹی جویریہ( رضی اللہ عنہا )، ثابت بن قیس رضی اللہ عنہ کے حصے میں آئیں ، حارث چند روز بعد خود مدینے میں آیا اور اپنی بیٹی کو آزاد کرانے کی خواہش ظاہر کی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جویریہ رضی اللہ عنہا کو فدیہ دے کر رہا کرا دیا۔ جویریہ رضی اللہ عنہا نے باپ کے ہمراہ جانے کے مقابلہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں رہنا پسند کیا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جویریہ رضی اللہ عنہا کے منشاء کے موافق اور حارث رضی اللہ عنہ کی رضا مندی سے جویریہ رضی اللہ عنہا کے ساتھ نکاح کر لیا، اس نکاح کا نتیجہ یہ ہوا کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے بنی المصطلق کے تمام اسیروں کو یہ کہہ کر آزاد کر دیا کہ جو قبیلہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا رشتہ دار بن گیا ہے، ہم اس کو قیدی یا غلام نہیں رکھ سکتے، ساتھ ہی تمام مال غنیمت بھی واپس کر دیا، اس طرح ایک قبیلہ کے ساتھ اس نکاح کی وجہ سے دشمنی کی جگہ محبت پیدا ہو گئی۔ یہود کی گوشمالی: اس جگہ یہ بات ذہن نشین کرنے کے قابل ہے کہ بنی نضیر جب سے جلاوطن ہو کر خیبر اور شام کی طرف چلے گئے تھے۔ انہوں نے مسلسل اپنی کوششوں اور ریشہ دوانیوں کو مسلمانوں کے خلاف جاری رکھا، انھی کوششوں سے عرب کے مشرک اور یہودی قبائل جا بجا مسلمانوں کی بیخ کنی کے لیے آمادہ ہونے لگے اور انھی کی ریشہ دوانیوں کا نتیجہ تھا کہ سرحد شام پر عیسائی فوجیں بھی مسلمانوں کو خطرے کی نظر سے دیکھنے لگیں ، چونکہ مسلمانوں کے خلاف تمام ملک عرب اور تمام اعرابی قبائل برانگیختہ کر دیئے گئے تھے اور جا بجا تمام ملک عرب میں مسلمانوں کی بیخ کنی کے سامان ہونے لگے تھے، لہٰذا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ملک کے ہر حصے اور ہر قبیلے سے باخبر رہنے کی کوشش فرماتے تھے اورجہاں کہیں خطرے اور فتنے کے قوی ہونے کا احتمال ہوتا تھا اپنی اسلامی فوج کے ساتھ پہنچ کر اس فتنے کو قوی ہونے سے پہلے دبا دیتے تھے۔