کتاب: تاریخ اسلام جلد اول (اکبر شاہ) - صفحہ 214
حسب دستور سیّدنا صفوان رضی اللہ عنہ قیام گاہ کا معائنہ کرتے ہوئے آئے اور انہوں نے ام المومنین رضی اللہ عنہا کو دیکھا تو متاسف و ششدر رہ گئے، فوراً اپنے اونٹ سے اترے، ام المومنین رضی اللہ عنہا کو اونٹ پر بٹھایا اور اس کی مہار پکڑ کر روانہ ہوئے، اور لشکر سے جا ملے، جب اپنے لشکر میں اس طرح پہنچے اور لوگوں کو اس واقعہ کا علم ہوا تو سب متاسف ہوئے، لیکن منافقین کو بڑا اچھا موقع باتیں بنانے اور بہتان باندھنے کا مل گیا، منافقوں نے طرح طرح کی باتیں کر کے لشکر میں ایک طوفان برپا کردیا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بہت متردد اور خاموش تھے۔ غرض منافقوں نے اس مرتبہ شریک لشکر اسلام ہو کر مسلمانوں کو اپنی شرارتوں سے پریشان کرنے کا خوب موقع پایا، سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا پر منافقوں نے بہتان باندھا اس سے بے خبر سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا قریباً ایک ماہ بیمار رہیں اور مسلمانوں کو عام طور پر سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کی عصمت و عفت اور مظلومی کا یقین ہو گیا۔ ایک مہینے کے بعد اللہ تعالیٰ تعالیٰ کی طرف سے ان کی پاک دامنی اور بے گناہی کا حکم نازل ہوا اور اللہ تعالیٰ نے صدیقہ رضی اللہ عنہا کے صدیقہ یعنی سچی ہونے کی گواہی دی۔[1] اس سے پیشتر ایک اور صدیقہ یعنی سیدہ مریم صدیقہ علیہاالسلام پر بھی اسی قسم کا بہتان یہودیوں نے باندھا تھا، وہ بھی خائب و خاسر ہوئے اور اس امت کی صدیقہ رضی اللہ عنہا پر بہتان باندھنے والوں کا انجام بھی خسران و ہلاکت ہی ہوا۔ اس سفر میں منافقوں نے جو شرارتیں کیں ان کا علم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ہوتا رہا، ابھی مدینہ منورہ میں داخل نہ ہوئے تھے کہ ایک صحابی نے عبداللہ بن ابی منافق کی بدکلامیوں کا ذکر کر کے اور گواہیاں گزران کر استدعا کی کہ اس منافق کے قتل کا حکم صادر فرمایا جائے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا عبداللہ بن ابی چونکہ بظاہر اپنے آپ کو مسلمان کہتا ہے اس لیے اگر اس کو قتل کیا گیا تو لوگ کہیں گے کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم اپنے دوستوں کو قتل کرنے لگے، عبداللہ بن ابی کا بیٹا سچا مسلمان تھا جن کا نام عبداللہ بن کہ اسلام باپ سے زیادہ قیمتی ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ نہیں میں عبداللہ بن ابی کو قتل کرنا نہیں چاہتا، یہاں تک کہ مدینہ منورہ میں داخل ہونے کے وقت عبداللہ بن ابی کے بیٹے نے خود باپ کو مدینے کے اندر داخل عبداللہ بن ابی تھا، عبداللہ بن عبداللہ کو جب معلوم ہوا کہ میرا باپ کشتنی و گردن زدنی ثابت ہو چکا ہے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا کہ عبداللہ بن ابی یعنی میرے باپ کے قتل کرنے کی خدمت میرے سپرد کی جائے، تاکہ میں اس کا سر کاٹ کر لاؤں [2] اور یہ ثابت ہو جائے
[1] صحیح بخاری، کتاب المغازی، حدیث ۴۱۴۱۔ صحیح مسلم، کتاب التوحید، باب فی الحدیث الافک [2] الرحیق المختوم ص ۴۵۱۔