کتاب: تاریخ اسلام جلد اول (اکبر شاہ) - صفحہ 213
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سیّدنا عمرفاروق رضی اللہ عنہ کو حکم دیا کہ تم آگے بڑھ کر ان کو اسلام کی دعوت دو، چنانچہ سیّدنا عمر رضی اللہ عنہ فاروق نے آگے بڑھ کر ان کو تبلیغ اسلام کی، انہوں نے اس کا سختی سے رد کیا۔ اس کے بعد طرفین سے حملہ آوری ہوئی، کفار کا علم بردار سیّدنا ابوقتادہ رضی اللہ عنہ کے ہاتھ سے مارا گیا، علمبردار کے گرتے ہی کفار کے پاؤں یک لخت اکھڑ گئے اور وہ میدان چھوڑ کر مسلمانوں کے سامنے سے بھاگ گئے، جو آدمی کفار کے گرفتار ہوئے ان میں جویریہ یعنی سالار لشکر کی بیٹی بھی گرفتار ہوئی، بہت سامان غنیمت بھی مسلمانوں کے ہاتھ آیا، مریسیع جہاں بنی المصطلق سے لڑائی ہوئی تھی مدینہ منورہ سے نو منزل کے فاصلہ پر تھا۔[1] منافقین کی شرارت: واپسی میں منافقوں نے اپنی عداوت باطنی کے تقاضے سے ایسی تدابیر اختیار کیں کہ بعض مہاجرین و انصار میں شکر رنجی و بے لطفی تک نوبت پہنچا دی۔ عبداللہ بن ابی نے انصار، مہاجرین کے سوال کو خوب ابھارا یہاں تک کہ اس کی زبان سے نکلا کہ مدینہ میں چل کر ان تمام مہاجرین کو مدینہ سے نکال دیا جائے گا، [2]اس سفر میں ایک اور قابل تذکرہ واقعہ پیش آیا کہ سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا بھی سفر میں ہمراہ تھیں ایک منزل پر لشکر نے قیام کیا وہاں سے روانگی کے وقت سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کا ہودج اونٹ پر رکھ دیا گیا اور یہ محسوس نہ ہوا کہ وہ ہودج میں ہیں یا نہیں ، حالانکہ وہ رفع حاجت کے لیے گئی ہوئی تھیں ، وہاں ان کو کسی قدر دیر اس وجہ سے لگی کہ وہ اپنی ہمشیرہ کا ایک ہار پہنے ہوئی تھیں ، اتفاقاً اس ہار کا ڈورا کسی جھاڑی میں الجھ کر ٹوٹ گیا اور تمام موتی بکھر گئے، چونکہ پرائی چیز تھی اس لیے اور بھی اس کا خیال ہوا، زمین پر سے موتیوں کو چننے میں وقت زیادہ صرف ہو گیا، لشکر اس عرصہ میں روانہ ہو گیا، آپ رضی اللہ عنہا واپس تشریف لائیں تو قیام گاہ کو خالی پایا، بہت متردد اور پریشان ہوئیں ، اسی عرصہ میں صفوان بن معطل رضی اللہ عنہ اپنا اونٹ لیے ہوئے پیچھے سے آتے ہوئے نظر آئے، صفوان بن معطل رضی اللہ عنہ کے سپرد یہ خدمت تھی کہ وہ سب سے پیچھے قیام کریں اور قافلہ کی روانگی کے بعد سب سے بعد میں قیام گاہ کا معائنہ کرتے ہوئے روانہ ہوں کہ اگر کسی کی کوئی چیز رہ گئی ہے تو اس کو اٹھاتے لائیں ، اور اس طرح کسی کا کوئی نقصان نہ ہونے پائے۔ صفوان رضی اللہ عنہ کو یہ خدمت اس لیے بھی سپرد کی گئی تھی کہ وہ کثیر النوم بھی تھے اور دیر میں سوتے ہوئے اٹھتے تھے۔
[1] سیرت ابن ہشام ص ۴۳۸ تا ۴۴۱ ملخصاً۔ [2] صحیح بخاری، کتاب التفسیر، حدیث ۴۹۰۰۔