کتاب: تاریخ اسلام جلد اول (اکبر شاہ) - صفحہ 212
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کو بخوشی اجازت دے دی، اس عرب سردار کا نام عیینہ بن حصن تھا، اس سفر کا نام غزوہ دومۃ الجندل مشہور ہے۔ اس مرتبہ مدینہ میں واپس تشریف لا کر قریباً پانچ ماہ تک کوئی اہم واقعہ ظہور پذیر نہیں ہوا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی تربیت اور تبلیغ اسلام میں مصروف رہے۔[1] غزوۂ بنو مصطلق: شعبان ۵ ھ میں خبر پہنچی کہ بنو المصطلق کا سردار حارث بن ابی ضرار جنگ کی تیاریوں میں مصروف ہے اور وہ عرب کے دوسرے قبائل کو اپنا شریک بنا رہا ہے کہ آؤ مسلمانوں پر حملہ کرنے میں میرے ساتھ شریک ہو جاؤ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے تحقیق حال کے لیے بریدہ بن حصیب اسلمی رضی اللہ عنہ کو بطور ایلچی روانہ کیا، سیّدنا بریدہ رضی اللہ عنہ نے واپس آ کر اطلاع دی کہ حارث بن ابی ضرار اسلام اور مسلمانوں کی بیخ کنی پر تلا ہوا ہے اس نے بہت سے قبائل کو اپنے ساتھ ملا لیا ہے اور کسی طرح لڑائی اور حملہ سے باز آنا نہیں چاہتا۔ ساتھ ہی خبر پہنچی کہ حارث اپنے لشکر کو لے کر روانہ ہونے والا ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فوراً مسلمانوں کو تیاری کا حکم دیا، مدینہ میں زید بن حارثہ رضی اللہ عنہ کو عامل مقرر کیا اور لشکر اسلام کے ساتھ روانہ ہوئے، اس لشکر میں تیس گھوڑے تھے جن میں دس مہاجرین کے اور بیس انصار کے تھے، مہاجرین اور انصار کے جدا جدا علم تھے، انصار کا علم سعد بن عبادہ کے ہاتھ میں تھا اور مہاجرین کے علمبردار سیّدنا ابوبکرصدیق رضی اللہ عنہ تھے، سیّدنا عمرفاروق کو مقدمۃ الجیش پر مقرر کیا گیا، چونکہ متواتر متعدد حملوں میں مسلمانوں کو کامیابی حاصل ہوتی ہوئی دیکھی تھی لہٰذا اس مرتبہ مال غنیمت کی طمع میں عبداللہ بن ابی بھی اپنی جماعت منافقین کے ساتھ شریک ہو گیا۔ یہ منافق لوگ چونکہ اپنے آپ کو مسلمان کہتے تھے اس لیے ان کو تمام اسلامی حقوق حاصل تھے اور شریک لشکر ہونے سے وہ منع نہیں کیے جا سکتے تھے، یہ سب سے پہلا موقع تھا کہ عبداللہ بن ابی اور اس کی جماعت منافقین لشکر اسلام کے ساتھ بغرض قتال روانہ ہوئی، جنگ احد میں تو یہ لوگ راستے ہی سے لوٹ کرچلے آئے تھے اور شریک جنگ نہ ہوئے تھے، حارث بن ابی ضرار نے ایک جاسوس روانہ کیا تھا، یہ جاسوس راستے میں اتفاقاً لشکر اسلام کے قریب پہنچا اور گرفتار ہو کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے پیش کیا گیا، جب اس کا جاسوس ہونا تحقیق ہو گیا اور اسلام لانے سے بھی اس نے انکار کیا تو رسم عرب اور جنگی آئین کے موافق اس کے قتل کا حکم صادر ہوا، اور وہ قتل کیا گیا، حارث کو جب اپنے جاسوس کے قتل ہونے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے قریب پہنچنے کی خبر پہنچی تو وہ بہت پریشان اور بدحواس ہوا۔
[1] سیرت ابن ہشام ص (۴۱۰)۔