کتاب: تاریخ اسلام جلد اول (اکبر شاہ) - صفحہ 21
مانتے ہیں ، یا صرف چند جو کسی قطار میں نہیں آ سکتے، ممکن ہے ایسے بھی مل سکیں جو اپنی زبان سے اللہ تعالیٰ کا انکار کریں مگر دل ان کے بھی ہستیٔ باری تعالیٰ کے اقرار پر مجبور ہیں اور ان کو بالآخر یہ ضرور تسلیم کرنا پڑتا ہے کہ یہ سلسلہ علل و معلول کسی مدبر بالارادہ کے ماتحت چل رہا ہے۔ اسی مدبر بالارادہ ہستی کا نام اللہ تعالیٰ ہے۔ بہ لوحے گرہزاراں نقش پیدا است نیاید بے قلمزن یک الف راست دنیا کے اس عظیم الشان اتفاق کے انکار اور تمام اہل دانش و بینش کے متفقہ عقیدے کی تغلیط و تردید پر کوئی شخص جو دیوانہ نہ ہو آمادہ نہیں ہو سکتا۔ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم : روما کی عظیم الشان سلطنت کے ٹکڑے ہو چکے تھے۔ اس کے نیم وحشیانہ آئین و قوانین بھی مسخ ہو کر اپنے مظالم و معائب کو اور بھی زیادہ مہیا و موجود اور محاسن کو جو پہلے ہی بہت کم تھے معدوم و مفقود کر چکے تھے، ایران کی بادشاہی ظلم و فساد کا ایک مخزن بنی ہوئی تھی، چین و ترکستان خونریزی و خونخواری کا مامن نظر آتے تھے، ہندوستان میں مہاراجہ اشوک اور راجہ کنشک کے زمانہ کا نظام و انتظام ناپید تھا، مہاراجہ بکرماجیت کے عہد سلطنت کا تصور بھی کسی کے ذہن میں نہیں آ سکتا تھا۔ نہ بدھ مذہب کی حکومت کا کوئی نمونہ موجود تھا۔ نہ برہمنی مذہب کا کوئی قابل تذکرہ پتہ و نشان دستیاب ہو سکتا تھا، عارف بدھ کا نام عقیدت سے لینے والوں کی حالت یہ تھی کہ حکومت کے لالچ، دنیا طلبی کے شوق اور ضعیف الاعتقادی کے نتیجہ میں سخت سے سخت قابل شرم حرکات کے مرتکب ہو جاتے تھے، شری کرشن کے نام کی سمرن جپنے والوں کی کیفیت یہ تھی کہ اشرف المخلوقات کو نباتات و جمادات کے آگے سربسجود بنا دینے میں ان کو دریغ نہ تھا، یورپ اگر ایک بیابان گرگستان اور وہاں کے باشندے خوں آشام و مردم کش درندے تھے تو عرب تمام عیوب و فسادات کا جامع تھا اور وہاں کے باشندے حیوانوں سے بھی بدتر حالت کو پہنچ چکے تھے۔غرض کہ دنیا کے کسی ملک اور کسی خطہ میں انسانی نسل اپنی انسانیت اور شرافت پر قائم نظر نہیں آتی تھی اور بحروبر سب ماؤف ہو چکے تھے۔ ایسی حالت میں جب کہ تمام دنیا تیرہ و تار ہو چکی تھی، ہندوستان والوں کا فرض تھا کہ وہ گیتا کے چوتھے باب میں شری کرشن مہاراج کے اس ارشاد پر غور کرتے کہ: ’’اے ارجن جب دھرم کی ہانی[1] ہوتی ہے اور ادھرم[2]بڑھ جاتا ہے، تب میں نیک لوگوں کی رکھشا[3]کرتا ہوں اور پاپوں کا ناش[4]کر کے دھرم کو قائم کرتا ہوں ۔‘‘
[1] یعنی دھرم پر عمل نہیں ہوتا۔ [2] بے دینی [3] حفاظت کرنا، خیال رکھنا۔ [4] خاتمہ