کتاب: تاریخ اسلام جلد اول (اکبر شاہ) - صفحہ 209
صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کا لشکر تھا۔ روانگی کے وقت آپ صلی اللہ علیہ وسلم عبداللہ بن رواحہ رضی اللہ عنہ کو مدینہ کا عامل مقرر فرما گئے تھے، اس مرتبہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے لشکر کا علم سیّدنا علی رضی اللہ عنہ کو سپرد کیا تھا، کل فوج میں اس مرتبہ دس گھوڑے تھے، ابوسفیان لڑائی سے جان بچانا اور طرح دینا چاہتا تھا مگر جب اس کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے مدینہ سے روانہ ہونے کا حال معلوم ہوا تو وہ مکہ سے دو ہزار کا لشکر جرار لے کرچلا، خشک سالی کی وجہ سے اس لشکر کے پاس سامان اذوقہ میں سوائے ستوکے اور کچھ نہ تھا، اس واسطے اس لشکر کا نام جیش السویق مکہ میں مشہور ہوا۔[1] ابوسفیان کے لشکر میں اس مرتبہ پچاس سوار تھے، یہ دو ہزار کا لشکر جب مقام عسفان میں پہنچا تو معلوم ہوا کہ اسلامی لشکر میں ڈیڑھ ہزار جاں باز موجود ہیں ، اہل مکہ بدر، احد میں دیکھ چکے تھے کہ تہائی اور چوتھائی تعداد کے مسلمانوں سے بھی ان کو شکست کھانی پڑی تھی، اب بھی اگرچہ مسلمان تعداد میں کم یعنی صرف تین چوتھائی تھے مگر اس تعداد کا حال معلوم ہو کر کفار کے اوسان خطا ہو گئے اور مقام عسفان ہی سے یہ کہہ کر مکہ واپس چلے گئے کہ ہم قحط سالی کے ایام میں جنگ کرنا مناسب نہیں سمجھتے، یہ لشکر جب راستہ ہی سے واپس ہو کر مکہ میں پہنچا ہے تو مکہ کی عورتوں نے کہا کہ تم صرف ستو پینے گئے تھے اگر لڑنے کے ارادہ سے جاتے تو واپس کیوں آتے۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مقام بدر میں پہنچ کر آٹھ روز تک کفار مکہ کے منتظر رہے، آٹھویں روز معبدبن ابی معبد خزاعی نے آکر اطلاع دی کہ ابوسفیان مکہ سے روانہ ہو کر اور مقام عسفان تک پہنچ کر پھر واپس چلا گیا ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم یہ سن کر بدر سے مدینہ منورہ کو تشریف لے آئے، یہ آخر رجب ۴ ھ کا واقعہ ہے، اس سفرکا نام غزوۂ بدر موعد، اور غزوۂ بدر ثانی، اور غزوۂ بدر صغریٰ، اور غزوۂ بدر اخریٰ، مشہور ہے، مال غنیمت تو مسلمانوں کے ہاتھ نہ آیا لیکن ان ایام میں چونکہ بدر میں میلہ لگتا تھا اس لیے مسلمانوں نے تجارت کے ذریعہ فائدہ اٹھا لیا۔ماہ شعبان میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ منورہ میں واپس تشریف لے آئے، اسی سال میں سیّدنا حسین رضی اللہ عنہ بن علی رضی اللہ عنہ پیدا ہوئے، اسی سال شراب حرام ہوئی،[2] اسی سال عبداللہ بن عثمان رضی اللہ عنہ یعنی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے نواسے نے بعمر چھ سال وفات پائی، اس بچے کی وفات کا سبب یہ تھا کہ مرغ نے آنکھ میں پنجہ یا خار مار دیا تھا جس کی تکلیف سے جاں بری ممکن نہ ہوئی۔ اسی سال زینت بنت خزیمہ کاانتقال ہوا، اسی سال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ابو سلمہ مخزومی کی وفات کے بعد ان کی بیوی ام سلمہ رضی اللہ عنہا سے نکاح کیا،[3] فاطمہ بنت اسید یعنی سیّدنا علی کرم اللہ وجہہ کی والدہ نے بھی اسی سال انتقال کیا۔
[1] سیرت ابن ہشام ص ۳۵۹۔ [2] دیکھیے: صحیح بخاری، کتاب التفسیر، حدیث ۴۶۱۷، ۴۶۱۹، ۴۶۲۰۔ [3] صحیح مسلم، کتاب الجنائز۔