کتاب: تاریخ اسلام جلد اول (اکبر شاہ) - صفحہ 208
غزوہ ذات الرقاع: اس عرصہ میں بنو محارب اور بنو ثعلبہ (قبیلہ غطفان کی شاخیں ہیں ) کے متعلق متواتر خبریں پہنچیں کہ وہ شرارت پر آمادہ اور حملہ کی تیاریوں میں مصروف ہیں ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم سیّدنا عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ [1] کو مدینہ کا عامل مقرر فرما کر صرف چار سو صحابہ رضی اللہ عنہم کے ساتھ ان کے مقابلہ کے لیے گئے، وہ لوگ مقام نخل میں جمع تھے، اسلامی لشکر جب ان کے قریب پہنچا تو وہ سب منتشر ہو کر بھاگ گئے، کوئی معرکہ نہیں ہوا اس غزوہ کا نام غزوہ ذات الرقاع ہے جو جمادی الاولیٰ ۴ ھ میں وقوع پذیر ہوا۔ ذات الرقاع اس کا نام اس لیے رکھا گیا کہ پہاڑی اور پتھریلی زمین میں سفر کرنے سے اکثر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے پاؤں زخمی ہو گئے تھے، جس کی وجہ سے غازیوں نے پاؤں میں کپڑے لپیٹ لیے تھے، بعض کا خیال ہے کہ ذات الرقاع اس پہاڑی کا نام ہے جہاں علاقۂ نجد میں جا کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے قیام فرمایا تھا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھ کر کفار فرار ہو گئے تھے۔[2] غزوۂ سویق: نجد کے اس سفر سے واپس آ کر تقریباً تین ماہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ منورہ میں تشریف فرما رہے، ابوسفیان جنگ احد میں یہ کہہ کر گیا تھا کہ آئندہ سال مقام بدر میں لڑائی ہو گی، مسلمانوں نے اس بات کو منظور کر لیا تھا، منافقین مدینہ جو رات دن مسلمانوں کی بربادی کی تدبیر سوچتے رہتے تھے انہوں نے نعیم بن مسعود کو مکہ بھیجا کہ قریش کو احد کی قرار داد یاد دلائے اور جنگ کے لیے آمادہ کرے، نعیم نے ابوسفیان کو توجہ دلائی کہ مسلمانوں کے مقابلہ کی تیاری کرنی چاہیے، مکہ میں اس سال کچھ قحط اور گرانی تھی، ابوسفیان نے کہا کہ ہم جنگ کی تیاری میں مصروف ہیں ، لیکن تم یہ کام کرو کہ مدینہ جا کر ہماری عظیم الشان تیاریوں کا حال سناؤ اور مسلمانوں کو ڈراؤ، تاکہ وہ مدینہ سے نہ نکلیں اور اس سال لڑائی نہ ہو۔ اگریہ کام تم سے سرانجام پا گیا تو تم کو بیس اونٹ بطور شکریہ پیش کیے جائیں گے۔ نعیم نے مدینے میں آکر بڑی آب تاب کے ساتھ قریش کی تیاریوں کا حال جا بجا بیان کرنا شروع کی، یہ خبر سن کر مسلمان کچھ فکر مند ہونے لگے، لیکن سیّدنا عمرفاروق رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہو کر عرض کیا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اللہ تعالیٰ کے سچے رسول ہیں ، پھر مسلمان ان خبروں کو سن سن کر کیوں گھبرا رہے ہیں ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اگر کوئی ایک شخص بھی میرے ہمراہ نہ چلے تو میں تنہا حسب وعدہ کفار کے مقابلہ کے لیے بدر کے میدان میں پہنچ جاؤں گا۔ چنانچہ اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جنگ کی تیاری کی اور بدر کے جانب روانہ ہوئے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہمراہ ڈیڑھ ہزار
[1] بعض اہل سیر نے ابوذر غفاری رضی اللہ عنہ کا نام لکھا ہے، مثلاً : ابن ہشام وغیرہ۔ [2] سیرت ابن ہشام ص ۴۰۷۔