کتاب: تاریخ اسلام جلد اول (اکبر شاہ) - صفحہ 207
انکار کیا، نہ اظہار ندامت کیا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مدینہ میں پہنچ کر ان کے پاس پیغام بھیجا کہ دوبارہ عہد نامہ لکھو، انہوں نے عہد نامہ لکھنے سے انکار کیا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پھر ان کو پیغام دیا کہ اگر عہد نامہ نہیں لکھتے، تو یہاں سے دس روز کے اندر جلاوطن ہو جاؤ اور کسی دوسری جگہ چلے جاؤ۔ بنو نضیر نے اس کے جواب میں انکار کیا اور لڑائی کے لیے مستعد ہو گئے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو لے کر ان پر چڑھائی کی، بنو نضیر اپنے قلعہ میں محصور ہو کر بیٹھ گئے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے محاصرہ کر لیا، یہ محاصرہ پندرہ روز تک جاری رہا۔ مدینہ کے منافقین اور عبداللہ بن ابی نے بنو نضیر کے پاس پیغام بھیجا کہ ہم تمہارے شریک ہیں اگر تم قلعہ سے نکل کر باہر میدان میں لڑوگے تو ہم بھی تمہارے ساتھ مل کر مسلمانوں کو قتل کریں گے، اگر تم جلاوطن ہونا قبول کرو گے تو ہم بھی تمہارے ساتھ ہی مدینہ کو چھوڑ کر جلاوطن ہو جائیں گے۔[1] بنونضیر کی جلاوطنی: منافقین کی اس پشت گری اور ہمت افزائی سے بنو نضیر کے دم خم بھی بڑھ گئے تھے، مگر آخر پندرہ دن کے محاصرہ اور مقابلہ کا نتیجہ یہ ہوا کہ یہودیوں نے عبداللہ بن ابی کے ذریعے پیغام بھیجا کہ ہماری جان بخشی کی جائے تو ہم جلاوطن ہونے پر آمادہ ہیں … آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم دیا کہ سوائے ہتھیاروں کے اور اپنا تمام مال و اسباب جو اونٹوں پر بار ہو سکتا ہے لے جاؤ اور یہاں سے نکل جاؤ۔ چنانچہ وہ ہتھیاروں کے سوا جس قدر مال اونٹوں پر لاد کر لے جا سکتے تھے، لے کر چلے گئے، جاتے ہوئے انہوں نے اپنے گھروں کو خود ہی ڈھا کر مسمار کر دیا اور گھر کے مٹکے وغیرہ برتن سب توڑ پھوڑ گئے۔ یہاں سے روانہ ہو کر وہ کچھ تو خیبر میں چلے گئے اور کچھ ملک شام میں جا کر آباد ہو گئے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے بقیہ مال و جائیداد اور ہتھیار ماہرین میں تقسیم فرما دیے، انصار میں سے صرف سیّدنا ابودجانہ رضی اللہ عنہ اور سیّدنا سہل بن حنیف رضی اللہ عنہ دو شخصوں کو اس مال غنیمت میں سے حصہ ملا، کیونکہ یہ دونوں بھی بہت غریب اور افلاس کی حالت میں تھے، یہودیوں میں سے یامین بن عمیر رضی اللہ عنہ اور سعید بن وہب رضی اللہ عنہ دو شخص مسلمان ہو گئے، اس لیے ان کے مال و اسباب و اسلحہ جنگ سے کوئی تعرض نہیں کیا گیا۔ اس غزوہ کا نام غزوہ بنو نضیر مشہور ہوا، یہ ماہ ربیع الاول ۴ ھ یعنی جنگ احد سے پورے چھ مہینے بعد کا واقعہ ہے۔ سورۂ حشر اسی غزوہ میں نازل ہوئی، اس واقعہ کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایک ماہ سے زیادہ عرصہ تک مدینہ منورہ میں تشریف فرما رہے۔[2]
[1] سیرت ابن ہشام ص ۴۰۴ تا ۴۰۶۔ [2] صحیح بخاری، کتاب المغازی، حدیث ۴۱۲۲ میں بنو نضیر کو دی گئی سزا کی کچھ تفصیل موجود ہے۔ نیز دیکھیے سیرت ابن ہشام ص ۴۰۶ و ۴۰۷۔