کتاب: تاریخ اسلام جلد اول (اکبر شاہ) - صفحہ 206
رنج میں چند روز کے بعد وہ مر گیا، عامر بن طفیل سیّدنا عمروبن امیہ ضمری کو گرفتار کر کے لے گیا تھا، پھر ان کے چہرے کے بال تراش کر اس نے چھوڑ دیا، کیونکہ اس کی ماں نے ایک غلام آزاد کرنے کی منت مانی ہوئی تھی، عامر بن طفیل نے اس منت کو پورا کرنے کے لیے ان کو چھوڑ دیا۔ جب یہ قید سے چھوٹ کر بئر معونہ سے مدینہ کو آ رہے تھے تو ان کو دو شخص جو بنو عامر سے تھے راستہ میں ملے، عمروبن امیہ ضمری رضی اللہ عنہ نے ان کو دشمن سمجھ کر اور موقع پا کر انتقاماً قتل کر دیا۔ مدینہ پہنچ کررسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو تمام حالات کی اطلاع دی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک مہینے تک ان قاتلوں پر بددعا فرمائی …۔ عامر بن طفیل بعد میں طاعون سے ہلاک ہو گیا۔[1] وفائے عہد: جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے عمرو بن امیہ سے راستہ میں ان دو شخصوں کے قتل کا حال سنا تو فرمایا کہ وہ دونوں تو ہماری امان تھے اور ہم سے عہدو پیمان کر گئے تھے، اب ان کا خون بہا دینا ضروری ہے۔ یہودیوں کا قبیلہ بنو نضیر قبیلہ بنو عامر کا ہم عہد تھا، ادھر مسلمانوں سے بھی ان کا معاہدہ تھا جس کی رو سے ان کو خوں بہا میں مدد کرنی چاہیے تھی، اس لیے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس خون بہا کے معاملہ میں بنو نضیر سے مشورہ کر لینا مناسب سمجھا، اور ان کے محلے یا ان کی بستی میں خود تشریف لے گئے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہمراہ سیّدنا ابوبکر صدیق،سیدنا عمر ،سیدنا علی رضی اللہ عنہم بھی گئے، بنو نضیر نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے تشریف لے جانے پر بظاہر خوں بہا میں شرکت کرنے پر آمادگی کا اظہار کیا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنے قلعہ کی دیوار کے سایہ میں بٹھایا تھا کہ قلعہ کی منڈیر پر اس جگہ ایک بہت بڑا پتھر دیوار کی طرح سے کھڑا ہوا رکھا تھا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے جدا ہو کر انہوں نے مشورہ کیا کہ یہ بہت اچھا موقع ہے کوئی شخص قلعہ پر چڑھ کر اوپر سے یہ پتھر دھکیل دے تاکہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کچلے جائیں ۔ یہود کی شرارت: چنانچہ ایک شخص عمروبن حجاثر بن کعب فوراً اوپر چڑھا کہ پتھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر گرائے ابھی وہ پتھر گرانے نہ پایا تھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اللہ تعالیٰ تعالیٰ نے بذریعہ وحی یہودیوں کے اس منصوبے سے اطلاع دی اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم فوراً وہاں سے اٹھ کھڑے ہوئے اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو ہمراہ لے کر مدینہ کی طرف روانہ ہوئے، یہودیوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو واپس بلانا چاہا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تم نے ہمارے قتل کرنے کا اس طرح منصوبہ کیا اب ہم کو تمہارا اعتبار نہیں رہا، یہودیوں نے اپنے اس منصوبہ سے
[1] صحیح بخاری، کتاب المغازی، حدیث ۴۰۸۸، ۴۰۹۰، ۴۰۹۱۔ سیرت ابن ہشام ص ۴۰۲ تا ۴۰۴۔