کتاب: تاریخ اسلام جلد اول (اکبر شاہ) - صفحہ 205
قتل گاہ میں لائے گئے تو انہوں نے دو رکعت نماز پڑھنے کی اجازت چاہی اور یہ اجازت مل گئی، انہوں نے وضو کیا اور دو رکعت نماز پڑھی، بعد نماز انہوں نے مشرکین سے کہا کہ میں نماز کو بہت طویل کرنا چاہتا تھا مگر محض اس خیال سے کہ تم یہ نہ کہو کہ قتل سے ڈرتا ہے اور ڈر کر نماز کے بہانے دیر لگاتا ہے میں نے نماز جلدی پڑھی ہے۔ مشرکوں نے سیّدنا خبیب رضی اللہ عنہ کو سولی پر لٹکا دیا اور ہر طرف سے نیزے لے لے کر ان کے جسم کو کچوکے دینا اور چھیدنا شروع کیا، تاآنکہ اسی طرح زخم دار ہوتے ہوتے ان کی روح قالب سے پرواز کر گئی،[1]سیدنا خبیب رضی اللہ عنہ نے جس بہادری کے ساتھ جان دی ہے اس کی مثال تاریخ عالم میں کہیں دستیاب نہیں ہو سکتی۔ روح فرسا حادثہ: چند روز بعد اسی ماہ صفر ۴ھ میں ابوبراء عامر بن مالک بن جعفر بن کلاب بن ربیعہ بن عامر بن صعصعہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے اسلام کی دعوت دی، وہ نہ تو مسلمان ہوا اور نہ اس نے اسلام کو نفرت کی نگاہوں سے دیکھا، بلکہ کہنے لگا کہ مجھ کو اپنی قوم کا خیال ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کچھ لوگوں کو میرے ساتھ کر دیں کہ وہ نجد میں چل کر میری قوم کو اسلام کی طرف بلائیں ، اور نصیحت کریں ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ مجھ کو اہل نجد سے اندیشہ ہے کہ وہ ان مسلمان کو نقصان نہ پہنچائیں ۔ ابوبراء نے کہا اس بات کا آپ صلی اللہ علیہ وسلم مطلق اندیشہ نہ کریں میں ان لوگوں کو اپنی حمایت میں لے لوں گا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے منذربن عمرو رضی اللہ عنہ ساعدی کو ستر صحابہ رضی اللہ عنہم کے ساتھ روانہ فرمایا۔ یہ ستر اصحاب رضی اللہ عنہم سب کے سب قاری اور قرآن کریم کے حفاظ تھے۔ جب یہ لوگ ارض بنو عامر اور حرہ بنو سلیم کے درمیان بئر معونہ پر پہنچے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا خط حرام بن ملجان رضی اللہ عنہ کے ہاتھ عامر بن طفیل کے پاس پہنچا، یہ عامر بن الطفیل ابوبراء عامر بن مالک مذکورہ کا بھتیجا تھا۔ اس نے اس خط کو پڑھا تک نہیں اور سیّدنا حرام بن ملحان رضی اللہ عنہ کو شہید کر دیا، پھر اپنی قوم بنو عامر کو ترغیب دی کہ ان تمام مسلمانوں کو قتل کر دو، لیکن بنو عامر نے انکار کیا، تب اس نے بنو سلیم سے کہا۔ چنانچہ بنو سلیم کے قبائل ، رعل، ذکوان،اور عقبہ آمادہ ہو گئے اور بلا جرم ظالموں نے سب کو شہید کر ڈالا۔ ابوبراء عامر بن مالک کو اس حادثہ کا بڑا رنج ہوا کہ اس کی امان میں اس کے بھتیجے نے فتور ڈالا، اسی
[1] صحیح بخاری، کتاب المغازی، حدیث ۴۰۸۶۔ سیرت ابن ہشام ص ۴۰۱۔