کتاب: تاریخ اسلام جلد اول (اکبر شاہ) - صفحہ 204
جب یہ لوگ سفر کرتے ہوئے قبیلہ ہذیل کے ایک تالاب موسومہ ’’رجیع‘‘ پر پہنچے تو ان غداروں نے قبیلہ ہذیل کے دو سو نوجوانوں کو بلا لیا، یہ قبیلہ بھی پہلے ہی سے شریک سازش تھا، مسلمانوں نے جب اپنے آپ کو کفار کے گروہ میں محصور پایا تو فوراً جرائت کر کے قریب کی پہاڑی پر چڑھ گئے اور ان کا مقابلہ شروع کیا، کفار نے ان دس آدمیوں کو آسانی سے گرفتار کرنا دشوار سمجھ کر دھوکے سے کام لینا چاہا اور کہا کہ ہم تو صرف تم کو آزماتے تھے کہ اگر اہل مکہ نے مقابلہ کیا تو تم ان کے مقابلہ میں ٹھہر سکو گے یا نہیں ، مسلمانوں نے ان کے قول و قرار پر اعتبار نہ کیا، بالآخر مسلمانوں کے دو آدمیوں کو زندہ گرفتار کرسکے باقی کفار سے لڑ کر شہید ہو گئے۔ ان دونوں گرفتار ہونے والے بزرگوں کے نام خبیب بن عدی رضی اللہ عنہ اور زید بن الدثنہ رضی اللہ عنہ تھے، ان دونوں کو وہ مکہ میں لے گئے، قریش نے گرفتار کرنے والوں کو کافی صلہ دے کر دونوں کو حارث بن عامر کے گھر میں چند روز بھوکا پیا سا قید رکھا۔ ایک روز حارث کا چھوٹاسا بچہ چھری لیے ہوئے کھیلتا ہوا سیّدنا خبیب رضی اللہ عنہ کے پاس پہنچ گیا، انہوں نے بچے کو اپنے زانو پر بٹھا لیا اور چھری لے کر الگ رکھ دی۔ بچے کی ماں نے جب دیکھا کہ بچہ قیدی کے پاس پہنچ گیا ہے اور تیز چھری بھی وہیں موجود ہے تو بے اختیار چیخ مار کر رونے لگی، سیّدنا خبیب رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ میں تمہارے بچے کو ہرگز قتل نہ کروں گا، تم مطمئن رہو۔[1] چند روز کے بعد سیّدنا زید رضی اللہ عنہ کو صفوان بن امیہ نے لیا اور اپنے باپ کے (جو بدر میں قتل ہوا تھا) خون کا عوض لینے کے لیے اپنے غلام فسطاس کے سپرد کیا کہ حدود حرم سے باہر لے جا کر قتل کرے، وہ سیّدنا زید رضی اللہ عنہ کو باہر لے گیا، قریش اور اہل مکہ اس قتل کا تماشہ دیکھنے کے لیے گروہ در گروہ آ کر جمع ہو گئے، تماشائیوں میں سے ابوسفیان نے آگے بڑھ کر کہا زید رضی اللہ عنہ اب تم بھوکے پیاسے قتل ہوتے ہو، کیا تم اس بات کو پسند کرتے ہو کہ اس وقت تم اپنے اہل و عیال میں آرام سے ہوتے اور ہم بجائے تمہارے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی (نعوذ باللہ) گردن مارتے؟ سیّدنا زید رضی اللہ عنہ نے نہایت سختی اور بہادری سے جواب دیا کہ واللہ ہم ہرگز پسند نہ کریں گے کہ ہم اپنے اہل و عیال میں ہوں اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ایک کانٹا بھی چبے، ابوسفیان نے کہا واللہ میں نے آج تک کوئی کسی کا دوست ایسا نہیں دیکھا جیسے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے دوست ہیں ۔ اس کے بعد سیّدنا زید رضی اللہ عنہ کو شہید کر دیا گیا۔ سیدنا خبیب رضی اللہ عنہ کو حجیربن ابی اہاب نے لے لیا تھا۔[2] سیّدنا زید رضی اللہ عنہ کے بعد سیّدنا خبیب رضی اللہ عنہ
[1] صحیح بخاری، کتاب المغازی، حدیث ۴۰۸۶۔ [2] سیرت ابن ہشام ص ۴۰۰ و ۴۰۱۔