کتاب: تاریخ اسلام جلد اول (اکبر شاہ) - صفحہ 203
ہجرت کا چوتھا سال بدعہدی اور شرارت : یکم محرم ۴ ہجری کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس خبر پہنچی کہ مقام قطن میں قبیلہ بنی اسد کے بہت سے مفسد جمع ہو گئے ہیں اور مسلمانوں پر حملہ کا قصد رکھتے ہیں ، طلحہ بن خویلد اور سلمہ بن خویلد ان کے سردار ہیں ، اس خبر کو سن کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ابوسلمہ مخزومی کو ڈیڑھ سو مسلمانوں کی جمعیت کے ساتھ روانہ کیا کہ ان شریروں کی گوشمالی کریں جب سلمہ رضی اللہ عنہ قطن میں پہنچے تو معلوم ہوا کہ دشمن مسلمانوں کے آنے کی خبر سن کر پہلے ہی فرار ہو گیا، دشمن کے کچھ مویشی مسلمانوں کے ہاتھ آئے، ان کو لے کر ابوسلمہ رضی اللہ عنہ مدینہ واپس آئے۔ وادیٔ عرفات کے نزدیک عرنہ ایک مقام ہے وہاں سفیان بن خالد ہذلی ایک سخت کافر رہتا تھا۔ اس نے کفار کو جمع کرنے اور مدینہ پر حملہ آور ہونے کی تیاریاں شروع کیں ، اس کی ان تیاریوں کی خبریں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس بہ تواتر پہنچنی شروع ہوئیں ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ۵ محرم ۳ ھ کو سفیان بن خالد ہذلی کی جانب عبداللہ بن انیس رضی اللہ عنہ کو روانہ کیا، عبداللہ بن انیس رضی اللہ عنہ دن کو چھپتے رات کو چلتے ہوئے مقام عرنہ پہنچے، وہاں پہنچ کر کسی ترکیب سے اس کا سر کاٹ لیا، اور وہ سر لے کر صاف بچ کر نکل آئے۔ [1]اٹھارہ دن کے بعد ۲۳ محرم ۴ ھ کو مدینے پہنچے اور وہ سر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاؤں میں ڈال دیا۔ ماہ صفر ۴ ھ قریش مکہ نے عضل وقارہ کے سات آدمیوں کو براہ فریب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں بھیجا، انہوں نے مدینے پہنچ کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا کہ میری ساری قوم نے اسلام میں داخل ہونے کا فیصلہ کر لیا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے ساتھ سکھلانے والے معلمین بھیج دیجئے کہ وہ ہم کو اسلام سکھائیں ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اصحاب کرام رضی اللہ عنہم میں سے دس اور بقول ابن خلدون چھ آدمیوں کو ہمراہ کر دیا۔ مرثد بن ابی مرثد غنوی یا عاصم بن ثابت رضی اللہ عنہ بن ابی الافلح کو اس بزرگ جماعت کا سردار مقرر فرمایا،
[1] زاد المعاد و سیرت ابن ہشام بحوالہ الرحیق المختوم، ص ۳۹۵۔