کتاب: تاریخ اسلام جلد اول (اکبر شاہ) - صفحہ 200
نہیں ہوئی،زیادہ سے زیادہ یہ کہ برابر کا مقابلہ رہا، کیونکہ اگر ہم یہ کہیں گے کہ فتح مند واپس آ رہے ہیں تو لوگ پوچھیں گے کہ تمہارے ساتھ مسلمان قیدی کہاں ہیں ؟ پھر پوچھیں گے کہ مال غنیمت کہاں ہے؟ جب کہ کوئی قیدی ہمارے پاس نہیں ، مال غنیمت بھی نہیں اور ولید بن عاصی، ابوامیہ بن حذیفہ ہشام بن ابی حذیفہ، ابی بن خلف، عبداللہ بن حمید اسدی، طلحہ بن ابی طلحہ، ابوسعید بن ابوطلحہ، مسافع و جلاسی پسران طلحہ اور ارطاۃ بن شرجیل وغیرہ سترہ ایسے شخص جو مشہور سردارن قریش میں تھے، اور پانچ چھ دوسرے بہادر قتل کروا آئے تو ہم کون فتح مند خیال کرے گا، جب کہ ہمارے ہاتھ سے صرف حمزہ رضی اللہ عنہ و معصب رضی اللہ عنہ وغیرہ تین چار قابل تذکرہ آدمی مقتول ہو سکے، یہ سوچ کر سب کی رائے بدلی، از سر نو پھر مارنے مرنے پر اظہار مستعدی کیا گیا۔ اور ابوسفیان اس تمام لشکر کو لے کر مقام روحاء سے واپسی پر آمادہ ہوا کہ مدینہ پر حملہ آور ہو۔
اسی حالت میں معبد بن ابی معبد مقام روحا میں پہنچا۔ اس نے ابوسفیان کو خبر سنائی کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ سے نکل کر تمہارے تعاقب میں روانہ ہو چکے ہیں ، مجھ کو ان کا لشکر حمراء الاسد میں ملا تھا اورو ہ غالباً بہت جلد تم تک پہنچ جانے والے ہیں ۔
یہ خبر سنتے ہی لشکر کفار بدحواس ہو کر وہاں سے سیدھا مکہ کی جانب روانہ ہوا اور مکہ پہنچ کر اس کے دم میں دم آیا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو جب یہ تحقیق ہو گئی کہ کفار بدحواسی سے مکہ کی طرف بھاگے چلے جا رہے ہیں تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم واپس مدینہ میں تشریف لے آئے، یہ سفر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا غزوہ حمراء الاسد کے نام سے مشہور ہے[1] اس کے ذریعے کفار کے دلوں میں مسلمانوں کا رعب قائم ہوا، اور مدینہ ان کے حملہ سے محفوظ رہا۔
جنگ احد میں تیراندازوں کی غلطی اور حکم کی تعمیل میں کوتاہی کرنے کے سبب مسلمانوں کو صدمہ پہنچا اور پریشانی کا سامناہوا، اس جنگ کی نسبت عام طور پر مشہور ہے کہ مسلمانوں کو شکست ہوئی لیکن یہ بہت بڑی غلطی ہے۔ مسلمانوں نے کفار کو اپنے سامنے سے بھگا دیا تھا، اور کفار شکست پا چکے تھے بعد میں وہ پھر حملہ آور ہو سکے لیکن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور مسلمانوں کے لشکر نے میدان نہیں چھوڑا، کفار ہی نے جنگ کو آئندہ سال پر ملتوی کیا اور مسلمانوں نے اس التوا کو منظور کرلیا، میدان سے اوّل کفار مکہ کی طرف روانہ ہوئے بعد میں مسلمان وہاں سے مدینہ کی طرف چلے، حمراء الاسد میں مسلمانوں کے آنے کی خبر سن کرکفار ہی سراسیمہ ہو کر بھاگے، ہاں اس میں شک نہیں کہ مسلمان کفار مقتولین کی نسبت زیادہ
[1] سیرت ابن ہشام، ص ۳۸۸ و ۳۸۹۔