کتاب: تاریخ اسلام جلد اول (اکبر شاہ) - صفحہ 199
اس لڑائی میں جو مدینے میں صرف تین چار میل کے فاصلہ پر ہوئی تھی عہد نامے کے موافق یہود مدینہ کو مسلمانوں کے ساتھ مل کر لڑنا اور کفار مکہ کا مقابلہ کرنا چاہیے تھا۔
عبداللہ بن ابی کے واپس آنے اور جمعیت کے کم ہو جانے کے بعد بعض صحابہ رضی اللہ عنہم نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ عرض بھی کیا تھا کہ یہودیوں سے مدد طلب کرنی چاہیے، مگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہودیوں سے مدد مانگنی مناسب نہیں سمجھی، چنانچہ یہودی مزے سے اپنے گھروں میں بیٹھے اوراس لڑائی کے نتیجے کا انتظار دیکھتے رہے۔
یہودیوں میں سے ایک شخص مخیریق نامی نے اپنی قوم سے کہا کہ تم پر محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی مدد فرض ہے، انہوں نے کہا کہ آج شنبہ کا دن ہے ہم نہیں لڑ سکتے، مخیریق نے کہا کہ یہ نبی اور کفار کا مقابلہ ہے شنبہ مانع نہیں ہو سکتا، چنانچہ اس نے تلوار اٹھائی اور سیدھا میدان جنگ میں پہنچا، جاتے ہوئے یہ اعلان کر گیا کہ اگر میں مارا جاؤں تو میرا مال محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے ہے جو چاہیں کریں ان سے کچھ تعرض نہ کرنا۔ لڑائی میں شریک ہوا اور مقتول ہوا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو جب یہ حال معلوم ہوا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ وہ بہترین یہود تھا۔[1]
ایک شخص حارث بن سوید نامی منافق مسلمانوں کے ہمراہ میدان جنگ تک گیا، جب لڑائی شروع ہوئی تو مجذر بن زیاد رضی اللہ عنہ اور قیس بن رضی اللہ عنہ زید و مسلمانوں کو شہید کر کے مکہ کی طرف بھاگ گیا، چند روز کے بعد مدینے میں واپس آیا اور گرفتار ہو کر سیّدنا عثمان عفان رضی اللہ عنہ کے ہاتھ سے قتل ہوا۔[2]
اس لڑائی میں سب سے بڑا فائدہ مسلمانوں کو یہ ہوا کہ وہ منافقوں کو خوب پہچان سکے، اور دوست و دشمن میں تمیز کرنے کے مواقع ان کو مل گئے، مدینہ پہنچ کر اگلے دن، یعنی شوال ۳ ھ بروز یک شنبہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم دیا کہ جو لوگ کل لڑائی میں شریک تھے صرف وہی کفار سے مقابلہ کرنے کے لیے نکلیں ، کسی نئے شخص کو یعنی ایسے شخص کو ہمراہ چلنے کی اجازت نہ تھی جو جنگ احد میں شریک نہ تھا، صرف ایک شخص سیّدنا جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمراہ چلنے کی اجازت دے دی تھی، چنانچہ تمام صحابہ رضی اللہ عنہم جو شریک جنگ احد تھے، حتیٰ کہ زخمی بھی، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ مدینے سے نکلے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مدینہ سے روانہ ہو کر آٹھ میل چل کر مقام حمراء الاسد میں مقام کیا، اور تین دن تک آپ صلی اللہ علیہ وسلم حمراء الاسد میں مقیم رہے، اتفاقاً معبد بن ابی معبد خزاعی جو مکہ کو جا رہا تھا، اس طرف سے گزرا۔
ادھر مقام روحا میں پہنچ کر مشرکین نے سوچا کہ اس لڑائی میں ہم کو مسلمانوں کے مقابلہ میں کوئی فتح
[1] سیرت ابن ہشام ص ۳۸۱۔
[2] سیرت ابن ہشام ص ۳۸۱۔