کتاب: تاریخ اسلام جلد اول (اکبر شاہ) - صفحہ 197
ابوسفیان بلند آواز سے کہا ’’افی القوم محمد‘‘ (کیا تم لوگوں میں محمد صلی اللہ علیہ وسلم ہیں ؟) آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے فرمایا اس کو جواب نہ دو، پھر اس نے پوچھا کیا تم میں ابوبکرصدیق رضی اللہ عنہ ہیں ؟) اس طرف سے کچھ جواب نہ ملا، پھر اس نے پوچھا کیاتم میں عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ ہیں ؟ اس پر بھی سکوت رہا، پھر وہ بولا معلوم ہوتا ہے کہ یہ سب قتل ہو گئے۔‘‘ اس پر سیّدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ کو تاب نہ رہی فوراً چلا کر بولے ’’اے دشمن اللہ تعالیٰ یہ سب زندہ ہیں اور تو رسوا ہو گا یہ سن کر کچھ متعجب سا ہوا اور فخریہ لہجے میں وہ کہنے لگا ’’اعل ھبل ، اعل ھبل‘‘ (ہبل کی جے ہبل کی جے) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مسلمانوں سے کہا اس کو جواب دو کہ اللٰہ اعلیٰ واجل (اللہ برتر و بزرگ ہے) ابوسفیان نے عمر فاروق رضی اللہ عنہ کی زبان سے یہ سن کرکہا لنا عزی لاعزی لکم (عزیٰ بت ہمارا ہے تمہارا نہیں ہے) عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشاد کے موافق جواب دیا ’’اللّٰہ مولنا ولا مولیٰ لکم‘‘ (اللہ ہمارا والی ہے تمہارا والی نہیں ہے) ابوسفیان نے کہا کہ یہ ’’لڑائی جنگ بدر کے برابر ہو گئی یعنی ہم نے جنگ بدر کا بدلہ لے لیا، [1] سیّدناعمر رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشاد کے موافق جواب دے دیا’’نہیں برابری نہیں ہوئی کیونکہ ہمارے مقتولین جنت میں ہیں اور تمہارے مقتولین دوزخ میں ‘‘ اس کے بعد ابوسفیان خاموش ہو گیا، پھر اس نے بلند آواز سے کہا ’’اب ہمارا تمہارا مقابلہ آئندہ سال پھر بدر میں ہوگا‘‘ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم دیا کہ کہہ دو ’’نعم ھو بیننا و بینکم موعد‘‘ (اچھا ہم کو یہ وعدہ منظور ہے)ابوسفیان یہ باتیں کہہ سن کر وہاں سے چل دیا،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سیّدنا علی رضی اللہ عنہ کو ابوسفیان کے پیچھے بھیجا کہ ان کی روانگی کا نظارہ دیکھو، اگر انہوں نے اونٹوں پر کجاوے نہیں کسے تو مدینہ پر حملہ کا قصد رکھتے ہیں ، اگر انہوں نے مدینہ پر حملہ کا قصد کیا تو ہم ان پر ابھی حملہ آور ہوں گے، سیّدنا علی رضی اللہ عنہ گئے اورتھوڑی دیر میں واپس آ کر خبر لائے کہ وہ اونٹوں پر سوار ہو کر گھوڑوں کو کوتل رکھے ہوئے ہیں ۔ میدان جنگ کا نظارہ: اس کے بعد مطمئن ہو کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم پہاڑی سے اترے، میدان میں شہداء کی لاشوں کو دفن کیا گیا، ۶۵ انصار اور چار مہاجرین شہید ہوئے تھے، کافروں نے بعض شہداء کی لاشوں کے ٹکڑے ٹکڑے کر دیئے تھے، ہند بنت عتبہ زوجہ ابوسفیان نے موقع پا کر سیّدنا امیر حمزہ رضی اللہ عنہ کی لاش کا مثلہ کیا یعنی ان کے کان، ناک وغیرہ کاٹ ڈالے تھے، آنکھیں نکال لی تھیں ، سینہ چاک کر کے جگر کاٹ کر نکالا اور اس کو دانتوں سے چبایا، مگر نگل نہ سکی اگل دیا اسی لیے جگر خوارہ مشہور ہوئی، سیّدنا زبیر بن العوام رضی اللہ عنہ کی والدہ
[1] صحیح بخاری، کتاب المغازی، حدیث ۴۰۴۳۔