کتاب: تاریخ اسلام جلد اول (اکبر شاہ) - صفحہ 196
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی استقامت: جب کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے گرد خوب زور شور سے ہنگامہ کارزار گرم تھا، ایک شقی نے دور سے ایک پتھر پھینک مارا جس سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ہونٹ مبارک زخمی ہوا اور نیچے کا ایک دانت شہید ہو گیا، اسی حالت میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا پائے مبارک ایک گڑھے میں جا پڑا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم گر گئے، سیّدنا علی رضی اللہ عنہ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ہاتھ پکڑا اور سیّدنا ابوبکرصدیق رضی اللہ عنہ اور سیّدنا طلحہ رضی اللہ عنہ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو باہر نکالا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے گرد جب صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی ایک مختصر جماعت فراہم ہو گئی اور لڑائی شدت سے جاری ہوئی تو کفار کے حملوں میں سستی پیدا ہونے لگی اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے کفار کو مار مار کر ہٹا دیا، اس حالت میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے پہاڑ کی طرف متوجہ ہونے کا حکم دیا اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی جماعت کے ساتھ پہاڑ کی ایک بلندی پر چڑھ گئے، مدعا اس سے یہ تھا کہ کفار کے نرغہ سے نکل کر پہاڑ کو پشت پر لے لیں اور لڑائی کا ایک محاذ قائم ہو جائے، چنانچہ یہ تدبیر، یعنی لڑائی کے لیے بہترین مقام کو حاصل کرنا بہت مفید ثابت ہوا، مسلمانوں کے بلند مقام پر چڑھ جانے کے بعد ابوسفیان نے بھی پہاڑ پر چڑھنا چاہا اور وہ کفار کی ایک جماعت کو لے کر دوسرے راستے سے زیادہ بلند مقام پر پہنچنا چاہتا تھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سیّدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ کو حکم دیا کہ ان کو اوپر چڑھنے سے باز رکھو، سیّدنا عمر فاروق ہمراہیوں کے ساتھ اس طرف روانہ ہوئے اور ابوسفیان کی جماعت کو نیچے دھکیل دیا… اب مسلمانوں کی جمعیت جلد جلد بڑھنے لگی، مسلمان جو منتشر ہو گئے تھے پہاڑ کی اس بلندی پر آ آ کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے گرد جمع ہونے لگے، کفار کو اب یہ جرات نہ ہوئی کہ مسلمانوں پر حملہ آور ہوں ، مگر ایک کافر ابی بن خلف جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے قتل کا پہلے سے ارادہ کر کے آیا تھا اپنے گھوڑے پر سوار رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر حملہ آور ہوا، اس کو آتے ہوئے دیکھ کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اس کو آنے دو، وہ قریب پہنچ کر آپ پر حملہ کرنا ہی چاہتا تھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک صحابی حارث بن صمہ رضی اللہ عنہ کے ہاتھ سے نیزہ لے کر اس پر وار کیا، نیزہ کی انی اس کی ہنسلی یعنی گردن کے نیچے کی ہڈی میں لگی، یہ زخم بہت معمولی سا معلوم ہوتا تھا، لیکن وہ زخم کھا کر نہایت بدحواسی کے ساتھ بھاگا، وہ جب حملہ آور ہوا تھا تو یہ شور مچاتا ہوا چلا تھا کہ میں محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو ضرور قتل کر کے آؤں گا، اس بدحواسی اور سراسمیگی کے ساتھ جب بھاگ کر گیا تو مشرکین نے اس کا مذاق اڑایا، چنانچہ اسی زخم کی وجہ سے وہ واپسی میں مکہ پہنچنے سے پہلے راستہ ہی مر گیا اور یہی ایک شخص ہے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاتھ سے قتل ہوا۔