کتاب: تاریخ اسلام جلد اول (اکبر شاہ) - صفحہ 195
کچھ لوگ مسلمانوں کی فوج کے ایسی حالت اور ایسے مقامات پر تھے کہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تک نہ پہنچ سکے اور ادھر ادھر منتشر ہو گئے، اس پریشانی اور کار زار کے عالم میں عبداللہ بن شہاب زہری نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے قریب پہنچ کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر وار کیا جس سے چہرہ مبارک زخمی ہوا ابن قمیئہ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے قریب پہنچ تلوار کا ایسا زبردست ہاتھ مارا کہ خود[1] کے دو حلقے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے چہرہ مبارک میں آنکھ سے نیچے کی ہڈی میں گھس گئے[2] ان کو عبیدہ بن الجراح رضی اللہ عنہ نے دانت سے پکڑ کر کھینچا تو ان کے دو دانت ٹوٹ گئے کفار کی پوری طاقت اب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات مبارک پر حملے میں صرف ہونے لگی۔ شمع رسالت صلی اللہ علیہ وسلم کے پروانے: ادھر چند جاں نثاروں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے گرد ایک حلقہ بنا لیا سیّدنا ابودجانہ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف منہ کر کے اپنی پشت کو سپر بنا لیا، پشت کو سپر بنانے میں یہ مدعا تھا کہ جو تیر آئے وہ ان کے جسم پر لگے، اگر منہ کفار کی طرف اور پشت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف ہوتی تو ممکن تھا کہ تیر کو آتے ہوئے دیکھ کر فطری طور پر جھجک پیدا ہو اور اپنے جسم کو بچائیں اور مبادا تیر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تک پہنچ جائے، چنانچہ ان کی پشت تیروں سیے چھلنی ہو گئی اور وہ اسی طرح کھڑے رہے، سیّدنا سعد بن وقاص رضی اللہ عنہ اور سیّدنا ابوطلحہ رضی اللہ عنہ سیّدنا زبیر رضی اللہ عنہ ، سیّدنا عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حفاظت کے لیے دیوار آہنی کی طرح ڈٹ کر کھڑے ہو گئے اور تیر و تلوار چلا چلا کر دشمنوں کو روکتے رہے، طلحہ رضی اللہ عنہ دشمنوں کی تلواروں کو اپنے ہاتھ پر روکتے تھے، یہاں تک کہ ان کا ہاتھ زخموں کی کثرت سے بیکار ہو گیا تھا،[3] زیاد بن سکن رضی اللہ عنہ انصاری مع اپنے پانچ ہمراہیوں کے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حفاظت کرتے ہوئے شہید ہوئے، سیّدنا عمارہ بن زیاد رضی اللہ عنہ بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حفاظت میں پروانہ وار شہید ہوئے، ام عمارہ جن کا نام نسیبہ بنت کعب رضی اللہ عنہا تھا لشکر اسلام کے پیچھے پیچھے لڑائی دیکھنے کی غرض سے گئی تھیں ،جب لڑائی کا رنگ دوپہر کے بعد یکایک تبدیل ہوا تو وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے قریب پہنچ گئیں ، ابن قمیئہ نے جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر وار کیا تو ام عمارہر نے تلوار لے کر ابن قمیئہ پر پے در پے وار کیے مگر چونکہ دوہری زرہ[4] پہنے ہوئے تھا اس پر اثر نہ ہوا اس نے ام عمارہ رضی اللہ عنہا کے تلوار کا ایک ہاتھ مارا تو شانہ کے قریب ان کا ہاتھ زخمی ہو گیا۔[5]
[1] جنگی آہنی ٹوپی۔ [2] صحیح بخاری، کتاب المغازی، حدیث ۴۰۷۳ تا ۴۰۷۵۔ [3] صحیح بخاری، کتاب المغازی، حدیث ۴۰۶۳۔ [4] لوہے کا لباس جو منہ، ہاتھوں ، اؤں وغیرہ کو چھوڑ کر باقی تقریباً تمام جسم پر ہوتا تھا۔ [5] سیرت ابن ہشام ص ۳۷۷۔