کتاب: تاریخ اسلام جلد اول (اکبر شاہ) - صفحہ 194
انہوں نے اپنے سو سواروں کا دستہ لے کر اور چکر کاٹ کر پہاڑی کے پیچھے ہو کر اسی گھاٹی سے نکل کر یک لخت مسلمانوں پر حملہ کر دیا، عبداللہ بن جبیر رضی اللہ عنہ اور چند ہمراہی اپنی جگہ موجود تھے لیکن وہ اس دستہ کو روک نہ سکے کیونکہ ان کے ماتحت قریباً تمام تیر انداز پہلے ہی اس مقام سے جا چکے تھے سیّدنا عبداللہ بن جبیر رضی اللہ عنہ اسی جگہ شہید ہو گئے، اس اچانک حملہ نے جو بالکل غیر متوقع طور پر ہوا اور تیر اندازوں کے جگہ چھوڑ دینے کی وجہ سے ہوا مسلمانوں میں کچھ پریشانی سی پیدا کر دی جس کی وجہ سے لوگوں نے کفار کا تعاقب چھوڑدیا، مسلمانوں کو اس حالت میں دیکھ کر عکرمہ بن ابوجہل نے بھی دوسری طرف سے اپنے سواروں کا دھاوا بول دیا، ساتھ ہی ابوسفیان جو میدان چھوڑ کر فرار ہو چکے تھے اپنے آدمیوں کو سمیٹ کر اور سب بھاگتے ہوؤں کوروک کر لوٹے اور لشکر کفار نئے جوش اور نئی ہمت کے ساتھ حملہ آور ہوا، مسلمانوں پر تمام حملے یکے بعد دیگرے اور اچانک طور پر ہوئے جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ لڑائی کا رنگ بدل گیا، مسلمان ہر طرف سے کفار کے نرغے میں آگئے اور ان کی جمعیت میں انتشار و سراسیمگی پیدا ہو گئی، میدان جنگ کی یہ صورت ہو گئی کہ جا بجا تھوڑے تھوڑے مسلمان بہت بہت کافروں کے غول میں گھر گئے۔ ایک دوسرے کو خبر نہ رہی اور ہر طرف سے ان پر تلواریں برسنے لگیں ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بھی صرف بارہ صحابہ رضی اللہ عنہم کے ساتھ کفار کے ایک نرغے میں آگئے، سیّدنا مصعب بن عمیر رضی اللہ عنہ علم لیے ہوئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے قریب ہی استادہ تھے، کفار کے ایک مشہور شہسوار ابن قمیئہ لیثی نے حملہ کیا اور سیّدنا مصعب بن عمیر کو شہید کر دیا، مصعب رضی اللہ عنہ چونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہم شبیہ تھے، اس لیے اس نے سمجھا محمد صلی اللہ علیہ وسلم شہید ہو گئے، ابن قمیئہ نے ایک بلند مقام پر چڑھ کر بلند آواز سے کہا کہ قد قتلت محمدا (’’محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم ) قتل ہو گئے۔‘‘) اس آواز سے مشرکوں کے دل بڑھ گئے اور وہ خوشی سے اچھلنے لگے، مسلمان اس آواز کو سن کر اپنی اپنی جگہ حیران و شددر رہ گئے۔ کعب بن مالک رضی اللہ عنہ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا تو بلند آواز سے کہا کہ مسلمانو! خوش ہو جاؤ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم زندہ و سلامت موجود ہیں ‘‘ پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بلند آواز سے فرمایا ’’الی عباداللّٰہ انا رسول اللہ‘‘ (اللہ تعالیٰ کے بندو میری طرف آؤ میں اللہ تعالیٰ کا رسول ہوں ) یہ آواز سن کر مسلمان ہر طرف سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف آنے شروع ہوئے، کفار سے لڑتے ان کے حملوں کو روکتے اور ان کو مارتے ہوئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے قریب پہنچے، ادھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اس آواز نے کفار کو بھی بتا دیا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کس جگہ تشریف فرما ہیں ، نتیجہ یہ ہوا کہ وہ بھی سب اسی طرف متوجہ ہو گئے اور وہ مقام جہاں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تشریف رکھتے تھے لڑائی کا مرکز بن گیا…