کتاب: تاریخ اسلام جلد اول (اکبر شاہ) - صفحہ 193
سیدنا حمزہ رضی اللہ عنہ شہید ہو گئے[1] اور وحشی نے جا کر ہندہ بنت عتبہ کو سیّدنا حمزہ رضی اللہ عنہ کے شہید کر دینے کی خبر سنائی۔ سیدنا حنظلہ رضی اللہ عنہ نے حملہ کر کے کفار کو اپنے سامنے سے ہٹا دیا اور ابوسفیان تک پہنچ گئے، سیّدنا حنظلہ رضی اللہ عنہ دوڑ کر ابوسفیان پروار کرنا ہی چاہتے تھے کہ شداد بن اسودلیثی نے پیچھے سے آ کر ان پر وار کیا اور وہ شہید ہو گئے، سیّدنا نضربن انس رضی اللہ عنہ اور سعد بن الربیع نے بھی بڑی بڑی چپقلش مردانہ دکھائی ، قریش کے بارہ علمبردار یکے بعد دیگرے مسلمانوں کے ہاتھ سے قتل ہوئے۔ ان کے علمبرداروں میں سے جب ایک قتل ہوتا اور علم گرتا تو دوسرا آکر اٹھا لیتا تھا، اسی طرح جب آخری علمبردار صواب قتل ہوا تو پھر کسی کو علم کے اٹھانے کا حوصلہ نہ ہوا اور وہ جھنڈا اسی طرح زمین پر پڑا رہا، مسلمانوں کے صف شکن حملوں اور جوانمردانہ شمشیر زنی کے مقابلہ میں کفار کے تین ہزار بہادروں کے پاؤں اکھڑ گئے، دوپہر کے قریب کفار پسپا ہونے شروع ہوئے اوّل تو وہ الٹے پاؤں لڑتے ہوئے پیچھے ہٹتے رہے، پھر پشت پھیر کر فرار ہونے لگے، یہاں تک کہ وہ اپنی حد سے بھی نکل گئے اور مسلمانوں نے قریش کی عورتوں کو جو پیچھے دف بجا بجا کر اشعار گا رہی اور اپنے مردوں کو لڑنے کی ترغیب دلا رہی تھیں ، دیکھا کہ وہ اپنا تمام سازو سامان چھوڑ چھاڑ کر بھاگ رہی اور بھگوڑوں کے ساتھ شامل ہو رہی ہیں ۔[2]ہند بن عتبہ بھی جو عورتوں کی جرنیل تھی بدحواسی کے ساتھ بھاگی اور اپنا تمام سامان میدان میں چھوڑ گئی۔ پانسہ پلٹ گیا: غرض مشرکوں کی شکست اور مسلمانوں کی فتح میں اب کوئی شک و شبہ باقی نہ رہا تھا، کفار جب مسلمانوں کے مقابلہ سے بھاگے ہیں تو دوپہر کا وقت تھا، کفار کو بھاگتے ہوئے اور ان کے جھنڈے کو دیر تک زمین پر پڑے ہوئے دیکھ کر تیر اندازوں کو جو گھاٹی کی حفاظت کے لیے تعینات کیے گئے تھے، اس بات کا شوق اور جوش پیدا ہوا کہ ہم بھی کفار کے تعاقب میں شریک ہو جائیں ، ان کے سردار سیّدنا عبداللہ بن جبیر رضی اللہ عنہ نے ان کو ہر چند روکا کہ جب تک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا حکم نہ ہو ہم کو اپنی جگہ سے نہیں ہلنا چاہیے، [3] مگر فتح کی خوشی اور کفار کے تعاقب کے شوق نے ان کو کچھ نہ سننے دیا اور انہوں نے اپنی جگہ کو چھوڑ دیا، خالد بن ولید جو لشکر قریش کے دستہ میمنہ کے افسر تھے اس گھاٹی کی اہمیت کو خوب تاڑ گئے تھے،
[1] صحیح بخاری، کتاب المغازی، حدیث ۴۰۷۲۔ سیرت ابن ہشام ص ۳۷۲، ۳۷۳۔ [2] صحیح بخاری، کتاب المغازی، حدیث ۴۰۴۳۔ [3] صحیح بخاری، کتاب المغازی، حدیث ۴۰۴۳۔