کتاب: تاریخ اسلام جلد اول (اکبر شاہ) - صفحہ 192
وعدہ کرو کہ علم برداری کی نازک خدمات بخوبی انجام دو گے تو علم کو اپنے پاس رکھو، ورنہ واپس کر دو، بنو عبدالدار نے علم نہیں دیا اور انتہائی بہادری دکھانے کا وعدہ کیا۔ مشرکین کے تیر اندازوں کا سردار عبداللہ بن ربیعہ تھا، ادھر کم از تین ہزار کا با سازو سامان جرار لشکر تھا، جو قریش اور دوسرے قبائل کے انتخابی بہادروں اور تجربہ کار جاں بازوں پر مشتمل تھا، ادھر صرف سات سو یا سات سو سے بھی کچھ کم آدمی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی فوج میں تھے، جن میں پندرہ سال کی عمر تک کے لڑکے بھی تھے۔ لشکر اسلام میں صرف دو گھوڑے تھے [1]…غرض تعداد میں مسلمان کفار کے مقابلہ میں چوتھائی سے بھی کم تھے، اور سامان جنگ میں تو عشر عشیر بھی نہ تھے۔ جنگ کی ابتدا: لڑائی کی ابتدا اس طرح ہوئی کہ سب سے پہلے ابو عامر راہب ( جو مدینہ کا باشندہ قبیلہ اوس سے تعلق رکھتا تھا اور اپنی قوم میں بڑا بزرگ سمجھا جاتا تھا، مدینہ میں مسلمانوں کے آنے سے آتش حسد میں جل بھن گیا تھا اور مکہ میں جا کر رہنے لگا تھا، وہ کفار کے ساتھ آیا تھا اور اس کا خیال تھا کہ میں میدان جنگ میں قبیلہ اوس کے لوگوں کو اپنی طرف بلا لوں گا) لشکر کفار سے نکل کر میدان میں آیا اور بنو اوس کو آواز دی، مگر انصار رضی اللہ عنہ نے اس کو دھتکار دیا اور وہ شرمندہ و روسیاہ ہو کر رہ گیا،[2] اس کے بعد طرفین سے حملہ آوری ہوئی۔ سیّدنا حمزہ رضی اللہ عنہ سیّدنا علی رضی اللہ عنہ ، سیّدنا ابودجانہ رضی اللہ عنہ وغیرہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے وہ وہ جواں مردانہ و شجاعانہ کار ہائے نمایاں ظاہر کیے کہ کفار کے حوصلے پست ہو گئے، سیّدنا ابودجانہ رضی اللہ عنہ کفار کو قتل کرتے اور صفوں کو چیرتے ہوئے اس مقام تک پہنچ گئے کہ ہند بنت عتبہ زوجہ ابوسفیان ان کی زد پر آگئی اور اس نے اپنے آپ کو قتل ہوتے ہوئے دیکھ کر چیخ ماری، سیّدنا ابودجانہ رضی اللہ عنہ نے یہ دیکھ کر کہ عورت ہے فوراً اپنا ہاتھ روک لیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تلوار عورت کے خون سے آلودہ نہ ہو،[3]اس طرح ہند بنت عتبہ کی جان بچی۔ سیدنا حمزہ رضی اللہ عنہ کی شہادت: سیّدنا حمزہ رضی اللہ عنہ نے حملہ کر کے مشرکین کے علمبردار طلحہ کو قتل کیا اور پھر دو دستی تلوار چلاتے اور مشرکین کی صفوف کو درہم برہم کرتے ہوئے بڑھے چلے جاتے تھے، حبشی غلام وحشی نے آپ کو بڑھتے ہوئے دیکھا اور ایک پتھر کی آڑ میں چھپ کر بیٹھ گیا، جب آپ رضی اللہ عنہ کفار کو مارتے ہٹاتے ہوئے آگے بڑھ گئے تو اس نے موقع پا کر اپنا حربہ پھینک کر مارا اور نیزہ ایک پہلو سے دوسرے پہلو کے پار نکل گیا،
[1] یہ واقدی کی روایت ہے اور واقدی کذاب مشہور ہے۔ (دیکھئے کتب اسماء الرجال!) [2] اس کے بارے میں مزید تفصیل کے لیے دیکھئے، سیرت ابن ہشام ص ۳۷۰۔ [3] سیرت ابن ہشام ص ۳۷۲۔