کتاب: تاریخ اسلام جلد اول (اکبر شاہ) - صفحہ 191
منافقین کی شرارت: صبح آپ احد کے قریب پہنچے تو ان ایک ہزار آدمیوں میں سے عبداللہ بن ابی اپنے تین سو آدمیوں کو لے کر مدینہ کی طرف واپس چلا آیا اور کہہ دیا کہ ہماری رائے پر چونکہ عمل درآمد نہیں ہوا، اس لیے ہم مدینہ سے باہر جا کر نہیں لڑیں گے، ان تین سو منافقوں کے جدا ہو جانے سے مسلمانوں کی تعداد صرف سات سو رہ گئی، آپ نے پہلے دن چھوٹی عمر کے لڑکوں کو بھی واپس کر دیا تھا، صبح صبح آپ صلی اللہ علیہ وسلم مدینے سے تین میل اتر کر احد کی پہاڑی کے دامن میں پہنچ گئے … وہاں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے احد کی پہاڑی کو پس پشت رکھ کر اپنا کیمپ قائم کیا۔ شوال بروز شنبہ ۳ ھ کو میدان کارزار گرم ہوا، لڑائی سے پیشتر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پچاس تیر اندازوں کا ایک دستہ عبداللہ بن جبیر انصاری رضی اللہ عنہ کی سرکردگی میں ایک گھاٹی پر تعینات فرما دیا اور ان تیر اندازوں کو حکم دے دیا کہ خواہ کوئی حالت پیش آئے جب تک تم کو دوسرا حکم نہ دیا جائے اپنے مقام کو ہرگز نہ چھوڑنا، میدان جنگ کے اس نازک مقام کو فوراً تاڑ لیا تھا، اس لیے دشمن کے اس اچانک حملہ کی روک کے لیے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ تیر انداز متعین فرما دیئے تھے۔ صفوف جنگ آراستہ کر کے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے میمنہ پر زبیر رضی اللہ عنہ بن العوام کو اور میسرہ پر منذر رضی اللہ عنہ بن عمرو کو مامور فرمایا، سیّدنا حمزہ رضی اللہ عنہ کو مقدمۃ الجیش مقرر فرمایا، سیّدنا مصعب بن عمیر رضی اللہ عنہ کو علم دیا گیا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی تلوار سیّدنا ابودجانہ رضی اللہ عنہ کو دی، [1]وہ اس تلوار کو لے کر نہایت مسرت کی حالت میں اکڑ کر میدان جنگ میں پھرتے تھے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا یہ چال اللہ تعالیٰ کو نا پسند ہے، مگر کفار کے مقابلہ میں میدان جنگ کے اندر اس طرح چلنا جائز ہے۔ دوسری طرف قریش نے اپنی صفوف جنگ کو آراستہ کیا، انہوں نے سو سواروں کی سرداری خالد بن ولید رضی اللہ عنہ (یہ ابھی تک مسلمان نہیں ہوئے تھے) کو دے کر میمنہ پر تعینات کیا اور سو سوار عکرمہ رضی اللہ عنہ بن ابوجہل (یہ بھی ابھی تک مسلمان نہ ہوئے تھے) کو دے کر میسرہ پر مقرر کیا۔ بنی عبدالدار میں قدیم الایام سے قریش کی علم برداری چلی آتی تھی، ابوسفیان نے بنی عبدالدار کو جوش دلانے کے لیے کہا کہ تم اگرچہ قدیم سے قریش میں علم برداری پر مامور ہو، لیکن جنگ بدر میں تمہاری علم برداری کی جو نحوست ظاہر ہوئی ہے وہ مجبور کرتی ہے کہ علم برداری کسی دوسرے کو سپرد کر دیں ، اگر تم
[1] جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی تلوار ہاتھ میں لے کر فرمایا کہ کون یہ تلوار مجھ سے لیتا ہے؟ … اور اس کا حق ادا کرے گا؟ … ابودجانہ رضی اللہ عنہ نے کہا کہ میں اسے لے کر اس کا حق ادا کروں گا۔ (رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے تلوار لینے کے بعد) ابودجانہ رضی اللہ عنہ نے کفار پر شدت سے حملہ کیا اور بہت سے کافروں کے سر پھاڑ دیئے۔ (صحیح مسلم، کتاب الفضائل، باب فضائل ابی دجانہ)