کتاب: تاریخ اسلام جلد اول (اکبر شاہ) - صفحہ 190
بھی لکھی ہے، لیکن صحیح یہ ہے کہ ان کی تعداد تین ہزار جنگ جو آدمیوں پر مشتمل تھی، عورتیں اور شاگرد پیشہ لوگ ان تین ہزار کے سوا ہوں گے۔ کفار کا یہ لشکر مکہ سے روانہ ہو کر مدینہ کے قریب پہنچ گیا، تب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اس کے قریب پہنچنے کی خبر ہوئی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسی وقت صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو بلا کر مجلس مشورت منعقد کی۔ عبداللہ بن ابی منافق بھی جو مسلمانوں میں شامل سمجھا جاتا تھا، اس مجلس میں موجود تھا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی رائے یہ تھی کہ ہم کو مدینہ ہی میں رہ کر مدافعت کرنی چاہیے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ رائے اس لیے بھی تھی کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے خواب میں دیکھا تھا کہ تلوار کی تھوڑی سی دھار گر گئی ہے جس سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اندیشہ تھا کہ شاید اس معرکہ میں مسلمانوں کو کچھ نقصان پہنچے۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دیکھا تھا کہ اپنا ہاتھ آپ نے ایک زرہ میں ڈال دیا ہے۔ زرہ کی تعبیر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مدینہ کو سمجھا تھا … عبداللہ بن ابی منافق کی بھی یہی رائے تھی کہ مدینہ کے اندر رہ کر مدافعت کی جائے ممکن ہے کہ اس نے اس سے رائے کے پیش کرنے میں اپنی کوئی خاص مصلحت مدنظر رکھی ہو، مگر صحابہ رضی اللہ عنہم میں سے اکثر کی یہ رائے ہوئی کہ ہم کو مدینہ سے باہر نکل کر مقابلہ کرنا چاہیے، تاکہ دشمن کو ہماری کمزوری کا احساس نہ ہو۔ بوڑھی عمر کے صحابہ رضی اللہ عنہم میں سے تو اکثر کی رائے یہی تھی کہ مدینہ میں بیٹھ کر مدافعت کریں ، مگر نوجوانوں نے اس کو پسند نہ کیا، یہ ۱۴ شوال جمعہ کا واقعہ ہے۔ اس مشورہ کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز جمعہ ادا کی، نماز پڑھ کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم گھر میں تشریف لے گئے اور وہاں سے زرہ پہن کر اور مسلح ہوکر باہر نکلے۔اب لوگوں کو خیال آیا کہ ہم نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی رائے کی مخالفت کی، کہیں یہ بات مصیبت نہ ہو، اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اگر پسند فرماتے ہیں کہ مدینہ کے اندر رہ کر ہی مدافعت کی جائے تو ایسا ہی کیجئے ہم کو کوئی عذر نہیں ، لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کثرت رائے اور مجلس مشورت کے نتیجے کو اس لیے پامال کرنا مناسب نہ سمجھا، کیونکہ کوئی وحی اور اللہ تعالیٰ تعالیٰ کی طرف سے حکم اس کے متعلق نازل نہ ہوا تھا، ان لوگوں کی دلداری بھی مدنظر تھی جو جنگ بدر میں شریک نہ ہوئے اور اب اپنی بہادریوں کے جوہر دکھلانے کے لیے بیتاب تھے۔ چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم بعد نماز جمعہ مدینہ سے روانہ ہوئے، مدینہ میں ایک صحابی ابن ام مکتوم رضی اللہ عنہ کو چھوڑ گئے کہ نماز پڑھایا کریں اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی غیر موجودگی میں مدینہ کا انتظام درست رکھیں ، ایک ہزار آدمی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہمراہ مدینہ سے روانہ ہوئے۔[1]
[1] سیرت ابن ہشام ص ۳۶۶، ۳۶۷۔