کتاب: تاریخ اسلام جلد اول (اکبر شاہ) - صفحہ 189
غزوۂ احد (سنہ۔۳ ھ)
جنگ بدر کے بعد ایک طرف تو خود اہل مکہ کے دلوں میں آتش انتقام موجزن تھی ، دوسری طرف مدینہ کے یہودیوں اور منافقوں نے ان کو برانگیختہ کرنے میں کوتاہی نہیں کی، تیسری طرف ابوسفیان کی بیوی ہندہ نے، جس کے باپ اوربھائی اور بیٹا بدر میں قتل ہوئے تھے، ابوسفیان کو غیرتیں دلائیں۔
چنانچہ ابوسفیان، جو تمام سرداران مکہ کے مقتول ہونے کے بعد مکہ میں سب سے بڑا سردار سمجھا جاتا تھا، جنگ کی تیاریوں میں مصروف ہوا، تجارت شام کا قافلہ جو جنگ بدر کے قریب ابوسفیان کی نگرانی میں واپس آیا تھا، ۵۰ ہزار مثقال سونا، ایک ہزار اونٹ منافع میں لایا تھا، اس قافلہ کا یہ تمام مال اس کے مالکوں میں تقسیم نہیں کیا گیا، بلکہ یہ سب سامان جنگ کی تیاری و فراہمی میں لگا دیا گیا۔ ملک عرب کے دوسرے قبیلوں میں شعراء روانہ کیے گئے، انہوں نے لوگوں کو قریش کی امداد پر آمادہ کیا، چنانچہ تمام بنو کنانہ اور اہل تہامہ قریش کے شریک ہو گئے، قریش کے تمام حلیف قبائل نے ان کی مدد کی، احباش نام کے حلیف قبائل کو بھی شریک جنگ اور داخل فوج کیا گیا، رجز خواں مرد اور بہادری دلانے کے لیے عورتیں بھی ساتھ لے لی گئیں ، غرض پورا سال مکہ والوں نے تیاریوں میں صرف کیا اور ان تیاریوں میں مدینہ کے یہودیوں اور منافقوں نے خفیہ طور پر ہر قسم کی خبریں پہنچا کر اور مشورے دے کر قریش کی سب سے زیادہ امداد کی۔
غرض تین ہزار جنگ جو اور نبرد آزما بہادروں کا لشکر ماہ شوال کی ابتدائی تاریخوں میں روانہ ہوا، جنگ بدر کے مقتول سرداران قریش کی لڑکیاں اور بیویاں بھی ہمراہ چلیں کہ اپنے عزیزوں کے قاتلوں کو قتل ہوتا ہوا دیکھیں ۔ شعراء بھی ساتھ تھے، اور وہ اپنے اشعار سنا سنا کر راستہ بھر بہادروں کے دلوں میں لڑائی کا جوش اور شوق پیدا کرتے ہوئے آئے، شرفاء قریش کی عورتوں میں ابوسفیان کی بیوی ہند بن عتبہ سپہ سالار تھی، جس طرح مردوں میں ابوسفیان تمام لشکر کا سپہ سالار اعظم تھا، جبیر بن مطعم کا ایک حبشی غلام وحشی نامی تھا، اس نے وحشی کو بھی ہمراہ لیا، کیونکہ وحشی حربہ (چھوٹا نیزہ) چلانا خوب جانتا تھا، یعنی حربہ کو پھینک کر مارتا تھا، جس کا نشانہ بہت ہی کم خطا جاتا تھا، جبیر بن مطعم نے کہا کہ اگر تو نے حمزہ رضی اللہ عنہ کو قتل کیا تو تجھے آزاد کردوں گا، ہند بنت عتبہ زوجہ ابوسفیان نے کہا کہ اگر تو نے میرے باپ کے قاتل حمزہ رضی اللہ عنہ کو قتل کیا تو تجھے اپنا تمام زیور اتار کر دے دوں گی۔[1] بعض تاریخوں میں اس لشکر کفار کی تعداد پانچ ہزار
[1] سیرت ابن ہشام ص (۳۶۵ و ۳۶۶)۔