کتاب: تاریخ اسلام جلد اول (اکبر شاہ) - صفحہ 187
ملک عرب کا عام دستور تھا کہ اسیران جنگ بلا دریغ قتل کر دیے جاتے تھے، اہل مکہ کو سب سے زیادہ تعجب اس بات کا ہوا تھا کہ اسیران بدر میں سے صرف وہ شخص جو حد سے زیادہ شرارت میں بڑھے ہوئے تھے قتل کیے گئے باقی سب کو چھوڑ دیا گیا، اب جوبنی قینقاع کے سات سو آدمی گرفتار ہوئے تو سب کو یقین تھا کہ یہ ضرور قتل کیے جائیں گے، مگر عبداللہ بن ابی ابن سلول جو منافقوں کا سردار تھا اور بظاہر مسلمانوں میں شامل تھا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں سفارشی ہوا کہ ان یہودیوں کوقتل نہ کیا جائے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کسی قدر متامل تھے، مگر عبداللہ بن ابی نے بار بار اور باصرار سفارش کر کے سب کی جان بخشی کرا لی۔[1] اورسیدنا عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ ان سب کو خیبر تک نکال آئے، عبداللہ بن ابی در پردہ ان یہودیوں کا ہمدرد تھا اور اسی لیے اس نے سب کی جان بخشی کرانے میں گویا اپنا حق دوستی ادا کیا۔ کعب بن اشرف کا ذکر ابھی ہو چکا ہے، اس نے اب علانیہ مسلمان عورتوں کے نام عشقیہ اشعار میں استعمال کرنے شروع کیے، اس سے مسلمانوں کو سخت صدمہ ہوتا تھا، پھر اس نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے قتل کی تدبیریں اورسازشیں شروع کیں ، جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم رات کے وقت باہر نکلنے میں احتیاط سے کام لیتے تھے۔ جب کعب بن اشرف کی شرارتیں حد سے بڑھ گئیں تو ایک صحابی محمد بن مسلمہ رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اس شریر کے قتل کی اجازت حاصل کرنے کے بعد کئی اور دوستوں کو ہمراہ لیا اور اس کے گھر جا کر اس کو قتل کیا۔[2] کعب بن اشرف کے بعد سلام بن ابی الحقیق یہودی نے اسی قسم کی شرارت پر کمر باندھی، اور وہ اپنی شرارتوں میں کعب بن اشرف سے بھی بڑھ کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی جان کا دشمن بن گیا۔ کعب بن اشرف کو چونکہ بنو اوس نے قتل کیا تھا اس لیے اب بنو خزرج کے آٹھ نوجوانوں نے خیبر کا راستہ لیا جہاں سلام بن حقیق رہتا تھا، وہاں پہنچ کر اس کو قتل کیا اور صاف بچ کرنکل آئے۔[3]
[1] سیرت ابن ہشام ص ۳۶۰ و ۳۶۱ [2] صحیح بخاری، کتاب المغازی، حدیث ۴۰۳۷۔ صحیح مسلم، کتاب الجھاد، باب قتل کعب۔ سیرت ابن ہشام ص ۳۶۱ تا ۳۶۳۔ [3] صحیح بخاری، کتاب المغازی، حدیث ۴۰۳۸ تا ۴۰۴۰۔