کتاب: تاریخ اسلام جلد اول (اکبر شاہ) - صفحہ 186
آسمانی کتاب میں لکھی ہوئی پیشین گوئیوں کو تلاش کرتے، تم انکار و مخالفت میں ترقی کرتے جا رہے ہو، اللہ تعالیٰ کے غضب سے ڈرو، ایسا نہ ہو کہ تم پر بھی اسی طرح عذاب الٰہی نازل ہو جس طرح ابوجہل و عتبہ وغیرہ کا انجام ہوا کہ میدان بدر میں ذلیل و نامراد ہو کر مرے، یہودیوں نے بجائے اس کے کہ نصیحت حال کرتے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو سخت و سست جواب دیے اورکہا کہ قریش مکہ تدبیرات جنگ ہی سے ناواقف تھے ہم سے جب مقابلہ کرو گے تو قدر عافیت معلوم ہو جائے گی، ہم کو قریش مکہ کی طرح نہ سمجھنا۔[1] یہودی قبیلہ بنی قینقاع: غرض اس قسم کی ناملائم باتیں وہ علانیہ بکنے لگے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان تمام ناشدنی باتوں کو نہایت صبر و سکون کے ساتھ سنا اور ان نالائقوں کو جو گویا معاہدہ کو خود توڑ چکے تھے، کوئی سزا دینی مناسب نہ سمجھی، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خواہش یہی تھی کہ وعظ و پند کے ذریعے ان کو راہ راست پر لایا جائے، اور ان گستاخیوں پر کریمانہ عفو و درگزر سے کام لیا جائے، مگر یہودیوں کی شامت نے خود ان کے لیے سامان ہلاکت فراہم کر دیئے تھے۔ ایک روز بنی قینقاع کی بستی میں کوئی میلہ یا بازار لگا، اس بازار میں انصار کی ایک عورت دودھ بیچنے کے لیے گئی، دودھ بیچ کر وہ سنار کی دوکان پر کوئی زیور خریدنے یا بنوانے گئی، اس سنار یہودی نے اس عورت کو چھیڑا، ایک انصاری نے جو بازار میں گئے ہوئے تھے انصاری عورت کو مظلوم دیکھ کر اس کی حمایت کی، ادھر ادھر سے یہودی جمع ہو گئے اور انصاری پر حملہ کر دیا، اس فساد میں وہ انصاری شہید ہو گئے، ان کے ہاتھ سے بھی ایک یہودی مارا گیا، اس خبر کو سن کر دوسرے مسلمان جو وہاں اتفاقاً موجود تھے پہنچے، یہودیوں نے فوراً مسلح ہو کر حملہ کیا، یہ خبر مدینہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو پہنچی، آپ صلی اللہ علیہ وسلم صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو لے کر پہنچے، اور یہودیوں کو مسلح اور آمادہ قتال پایا، غرض مقابلہ ہوا اور نوبت یہاں تک پہنچی کہ بنی قینقاع، جن میں سات سو آدمی جنگ جو تھے ان میں تین سوز رہ پوش بھی تھے، اپنے قلعہ میں محصور ہو گئے، بنی قینقاع سیّدنا عبداللہ بن سلام کی برادری تھی، مسلمانوں نے قلعہ کا محاصرہ کر لیا، پندرہ سولہ روز کے محاصرہ کا نتیجہ یہ ہوا کہ مسلمان قلعہ پر قابض و متصرف ہو گئے اور تمام بنی قینقاع کو گرفتار کر لیا۔
[1] ہدایت دینا صرف اللہ وحدہٗ لا شریک لہ کا کام ہے۔ جو لوگ اپنے دل میں حق کی تڑپ رکھیں ، اللہ رب العالمین کے قانون اور سنت کے مطابق ہدایت وہی پاتے ہیں اور جن کے دلوں میں پیاس حق اور قبول حق کا جذبہ ہی موجود نہ ہو، وہ بہرحال ہدایت و ایمان سے محروم رہتے ہیں ۔ یہی معاملہ ان کا تھا۔