کتاب: تاریخ اسلام جلد اول (اکبر شاہ) - صفحہ 185
حارثہ رضی اللہ عنہ مدینہ میں پہنچے تو کعب بن اشرف نامی ایک یہودی نے اس خبر کو سن کر سیّدنا زید رضی اللہ عنہ سے کہا کہ تیرا برا ہو مکہ والے لوگوں کے بادشاہ اور اشراف عرب ہیں ، اگر محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے ان لوگوں پر فتح پائی ہے …۔ تو پھر اس زمین پر رہنے کا کوئی لطف باقی نہیں رہا۔ جب اس خبر کی خوب تصدیق ہو گئی تو کعب بن اشرف مدینہ چھوڑ کر مکے کی جانب چلا گیا، مکہ میں جا کر اس نے مقتولین بدر کے نوحے لکھنے اور سنانے شروع کیے اور چند روز تک اپنے اشعار سنا سنا کر اہل مکہ کی آتش انتقام کے بھڑکانے میں مصروف رہا پھر مدینہ میں واپس آ کر مسلمانوں کے ہجو میں اشعار لکھتا، اور مسلمانوں کے خلاف زہر اگلتا رہا، [1]یہودی سب کے سب سود خور اور بڑے مال دار تھے، قبائل اوس اور خزرج، یعنی انصار مدینہ ان یہودیوں کے مقروض اور مالی اعتبار سے ان کے دبیل تھے، یہودیوں کو اپنی دولت اور چالاکیوں پر بھی بڑا گھمنڈ تھا، وہ اپنے آپ کو بڑا معزز اور شریف جانتے تھے اور ہمسایہ قبائل کو جاہل اور بیوقوف سمجھ کر خاطر میں نہ لائے تھے۔ جنگ بدر کے بعد وہ پورے طور پر قریش مکہ کے ہمدرد و شریک کار بن گئے، عبداللہ بن ابی اور یہودیوں کے درمیان دوستی اور محبت قائم ہوئی اور مسلمانوں کے خلاف مدینہ کے منافقوں اور یہودیوں نے بڑی بڑی عظیم الشان اور خطرناک تدبیریں سوچیں اور قریش مکہ کی مہمات کو کامیاب بنانے کا اہتمام گویا اپنے ہاتھ میں لے لیا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی قبولیت اور اثر کو مٹانے کے لیے عام طور پربد زبانیوں کا سلسلہ بھی برابر جاری کیا گیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی مجلس میں بھی آ آکر ہتک آمیز اور بیہودہ کلمات کہنے شروع کیے، السلام علیکم کی جگہ السام علیکم (تم پر موت آئے) کہتے۔ را عنا (ہماری رعایت کیجئے یا ہماری بھی بات سنئے)کی جگہ رعن(احمق ہے) وغیرہ ناشائستہ الفاظ استعمال کرتے۔ منافقوں اور یہودیوں نے مل کریہ بھی منصوبہ گانٹھا کہ اوّل بظاہر مسلمان ہو جاؤاورپھر یہ کہہ کر کہ ہم نے مسلمان ہو کر دیکھ لیا ہے کہ یہ مذہب اچھا نہیں ہے، مرتد بن جاؤ، اس طرح ممکن ہے کہ بہت سے مسلمان بھی ہمارے ساتھ مرتد ہو جائیں اور ان کی جمعیت منتشر ہو جائے۔ غرض کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور مسلمانوں کے لیے مدینہ میں اب نہایت سخت اور نئی نئی مشکلات کا سامنا ہوا … رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہودیوں کے جلسوں اورمجمعوں میں خود جا جا کر ان کو نصیحتیں کیں اور کہا کہ تم خوب واقف ہو کہ میں اللہ تعالیٰ کا سچا رسول ہوں اورتم خود اللہ تعالیٰ کی طرف سے رسول کے آنے کا انتظار کر رہے تھے، تمہارا فرض تھا کہ سب سے پہلے میری تصدیق کرتے اور اپنی
[1] سیرت ابن ہشام ص ۳۶۱ و ۳۶۲۔