کتاب: تاریخ اسلام جلد اول (اکبر شاہ) - صفحہ 184
ہجرت کا تیسرا سال عبداللہ بن ابی ابن سلول کا ذکر اوپر آ چکا ہے کہ مدینہ والے اس کو اپنا بادشاہ بنانا چاہتے تھے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے تشریف لے جانے سے اس کی بادشاہت خاک میں مل گئی تھی، اس کو مسلمانوں سے دلی عداوت تھی، مگر چونکہ آدمی عقل مند تھا اس نے اپنی عداوت کو چھپایا، پھر قریش مکہ کے ساتھ ساز باز شروع کر کے مدینہ والوں کو علانیہ مسلمانوں کے مقابلہ پر ابھارنا چاہا، مگر ناکام رہا، اب مسلمانوں کی فتح بدر کو دیکھ کر وہ بہت مرعوب ہوا اور بظاہر اسلام قبول کر لیا لیکن دل میں چونکہ حسد اور دشمنی رکھتا تھا، لہٰذا اس ظاہری طور پر داخل اسلام ہونے سے اس کو کوئی فائدہ نہ پہنچا بلکہ اس کی عداوت اور دشمنی مسلمانوں کے لیے پہلے سے زیادہ خطرناک و مضرت رساں ثابت ہوئی، اس کے زیر اثر جس قدر مشرکین ابھی تک شرک پر قائم اور مسلمانوں کے دشمن تھے ان کو بھی اس نے ظاہری طورپراسلام قبول کر لینے کا مشورہ دیا، اس قسم کے لوگوں کا وہ سردار، پیشوا بنا رہا، اس گروہ کو منافقین کا گروہ کہا جاتا ہے، ان منافقوں کے گروہ میں بعض یہودی بھی شامل ہو کراور ظاہری طور پر مسلمان ہو کر فائدہ اٹھانے لگے۔ یہودیوں کا معاندانہ رویہ: یہودی بھی مسلمانوں کے اقتدار اور مذہب اسلام کی اشاعت کو بہت مکروہ سمجھتے تھے، اور ان کی عداوت عبداللہ بن ابی کی عداوت سے بڑھی ہوئی تھی، مدینہ کی متعلقہ بستیوں یا یوں سمجھئے کہ مدینہ کے نواحی محلوں میں یہودیوں کے تین قبیلے بہت طاقتور تھے اور اپنی جدا جدا گڑھیاں یا قلعے رکھتے تھے، ان تینوں قبیلوں کے نام یہ تھے، بنی قینقاع، بنی نضیر اور بنی قریظہ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مدینہ میں تشریف لاتے ہی جو معاہدہ مرتب فرمایا تھا اس میں یہودیوں یہ تمام قبیلے کے شامل تھے، قریش نے جس طرح عبداللہ بن ابی کے ساتھ ساز باز کی تھی اسی طرح وہ ان یہودیوں کو بھی برابر اپنا ہمساز بنانے میں مصروف رہے۔ یہودیوں کو چونکہ مسلمانوں کی ترقی دل سے نا پسند تھی لہٰذا وہ قریش کی ہمدردی اور مسلمانوں کی بربادی کے لیے برابر کوشاں رہے، اب جنگ بدر کے بعد ان کی عداوت مسلمانوں کے ساتھ اور بھی بڑھ گئی اورآتش حسد میں وہ جل کرکباب بن گئے۔ چنانچہ جب بدر سے فتح کی خوشخبری لے کر سیّدنا زید بن