کتاب: تاریخ اسلام جلد اول (اکبر شاہ) - صفحہ 181
قبضہ پکڑ کر رسول اللہ کے پاس لے گئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ عمر رضی اللہ عنہ تم عمیر رضی اللہ عنہ کو چھوڑ دو۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے قریب بلا کر پوچھا کہ کیوں آئے ہو؟ عمیر رضی اللہ عنہ نے جواب دیا کہ میرا بیٹا قیدیوں میں شامل ہے اسے رہا کرانے آیا ہوں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم مجھ پر رحم کریں اور میرے بیٹے کو آزاد کر دیں ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تم کو صفوان نے میرے قتل کے لیے آمادہ کر کے بھیجا ہے سچی بات کیوں نہیں کہتے۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے صفوان اور عمیر کے مشورہ کرنے کی تمام کیفیت سنا دی، عمیر رضی اللہ عنہ نے کہا میں مسلمان ہوتا ہوں اور اقرار کرتا ہوں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اللہ تعالیٰ کے بھیجے ہوئے سچے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہیں ، کیونکہ اس بات کی خبر سوائے صفوان اورمیرے کسی تیرے شخص کو ہرگز ہرگز نہ تھی۔[1] جنگ بدر میں اللہ تعالیٰ نے فرشتوں کے ذریعے مسلمانوں کی مدد کی، فرشتوں کے شریک جنگ ہونے کا حال خود کفار نے مکہ میں جا کر بیان کیا، بعض مشرکین اطراف مدینہ جو لڑائی کا تماشا دیکھنے چلے گئے تھے یا اتفاقاً لڑائی کے روز بدر میں موجود اور قریب کی پہاڑی پر بیٹھے ہوئے تماشا دیکھ رہے تھے ان کا بیان ہے کہ ہم نے لڑائی کے وقت اپنے سروں کے اوپر سے ایک بادل کے ٹکڑے کو گزرتے ہوئے اورمقام جنگ کی طرف جاتے ہوئے دیکھا، اس بادل کے ٹکڑے میں سے جب کہ وہ بالکل بالکل ہمارے قریب سے گزر رہا تھا، گھوڑے کے ہنہنانے کی آواز سنائی دی اور کسی کو یہ کہتے ہوئے سنا کہ جلد آگے بڑھو، راوی کہتا ہے کہ اس آواز کے سننے سے ہم پر اس قدر خوف طاری ہوا کہ میرے چچا زاد بھائی کا خوف کے مارے دم نکل گیا۔[2] جنگ بدر سے فارغ ہو کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ۲۲ رمضان المبارک کو مدینہ میں واپس تشریف لائے، اسی رمضان کی آخری تاریخوں میں صدقہ فطر واجب ہوا، عیدین کی نمازیں اور قربانی بھی اسی سال مقرر ہوئی،[3] اسی سال آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی دوسری صاحبزادی ام کلثوم رضی اللہ عنہا کا نکاح سیّدنا عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ سے کیا اور وہ ذی النورین کہلائے، اسی سال جنگ بدر کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی چھوٹی صاحبزادی سیّدنا فاطمۃ الزہرا رضی اللہ عنہا کا نکاح سیّدنا علی رضی اللہ عنہ سے کیا۔[4] کفار مکہ کے دلوں میں انتقام کی آگ خوب تیزی سے شعلہ زن تھی، جنگ بدر کے دو مہینے بعد ابوسفیان دو سو سوار لے کر مکہ سے بارادئہ جنگ روانہ ہوا، جب مدینہ کے قریب یہ لشکر پہنچا تو
[1] سیرت ابن ہشام، ص ۳۲۴، ۳۲۵۔ [2] صحیح مسلم، کتاب الجھاد والسیر، باب الامداد بالملئکۃ فی غزوۃ بدر۔ [3] صحیح بخاری، کتاب العیدین۔ صحیح مسلم، کتاب العیدین [4] صحیح بخاری، کتاب المغازی، حدیث ۴۰۰۳۔ صحیح مسلم، کتاب الاشربہ، باب تحریم الخمر