کتاب: تاریخ اسلام جلد اول (اکبر شاہ) - صفحہ 180
اسیران جنگ کا مسئلہ:
اسیران جنگ کے متعلق رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مسجد نبوی میں صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے مشورہ کیا تو سیّدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ میری تو یہ رائے ہے کہ ان قیدیوں کے اندر ہم میں سے جو جس کا عزیز ہے وہی اس کو قتل کرے، تاکہ مشرکوں کو معلوم ہو جائے کہ ہمارے دلوں میں اللہ و رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت قرابت داری کے مقابلہ میں بہت زیادہ ہے، اور اسلام کے مقابلے میں تمام رشتے ہیچ ہیں ۔
سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے فرمایا میری رائے یہ ہے کہ فدیہ لے کر ان کو آزاد کر دیا جائے، تاکہ مسلمانوں کو کچھ مالی امداد پہنچے، اور یہ اپنا سازو سامان جنگ درست کر سکیں اور ممکن ہے کہ ان اسیروں میں سے اکثر کو دین اسلام کے قبول کر لینے کی توفیق بھی میسر ہو۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سیّدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کی رائے کو پسند فرمایا، بعض قدیوں کو بلا فدیہ لیے ہوئے ویسے ہی چھوڑ دیا، فی کس ایک ہزار درہم سے چار ہزار درہم تک فدیہ مکہ والوں نے بھجوا کر اپنے عزیزوں اور رشتہ داروں کو چھڑا لیا، جو قیدی لکھنا پڑھنا جانتے تھے اور زر فدیہ بھی ادا نہ کر سکتے تھے ان سے کہا گیا کہ مدینہ کے دس دس بچوں کو لکھنا سکھا دو اور آزاد ہو جاؤ۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بیٹی سیّدنا زینب رضی اللہ عنہا ابھی تک مکہ میں اپنے شوہر ابوالعاص کے یہاں تھیں ، ابوالعاص بھی ان قیدیوں میں شامل تھے، زینب رضی اللہ عنہا نے اپنے گلے کا ہار اتار کر ابوالعاص رضی اللہ عنہ کے فدیہ میں بھیج دیا تھا۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے فرمایا کہ مناسب سمجھو تو زینب رضی اللہ عنہا کا ہار اس کو واپس کر دو کیونکہ یہ اس کی ماں خدیجہ رضی اللہ عنہا کی یادگار اس کے پاس ہے۔ لوگوں نے بخوشی اس بات کو قبول کیا اور سیّدنا ابوالعاص رضی اللہ عنہ کو چھوڑ دیا۔ سیّدنا ابوالعاص رضی اللہ عنہ نے مکہ میں واپس جا کر سیّدنا زینب رضی اللہ عنہا کو مدینہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس بھیجوا دیا، ابوالعاص اس واقعہ کے چھ برس بعد مسلمان ہو گئے تھے۔[1]
کفار مکہ کا جوش انتقام:
مکہ میں اس شکست کے بعد مقتولین بدر کے ورثاء نے بلند آواز سے نوحہ و زاری نہیں کی، کیونکہ اس خبر سے مسلمان خوش ہوتے، صفوان بن امیہ نے جس کا باپ امیہ، اور بھائی علی، دونوں بدر میں مارے گئے تھے، عمیر بن وہب کو خفیہ طور پر آمادہ کیا کہ مدینہ میں جا کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو قتل کرے۔ عمیر بن وہب زہر میں بجھی ہوئی تلوار لے کر مکہ سے چل کرمدینہ پہنچے تو سیّدنا عمر رضی اللہ عنہ کو شبہ گزرا، وہ عمیر رضی اللہ عنہ کی تلوار کا
[1] سیرت ابن ہشام ص ۳۱۹ تا ۳۲۱۔