کتاب: تاریخ اسلام جلد اول (اکبر شاہ) - صفحہ 179
اس کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے اصحاب رضی اللہ عنہم کے ساتھ تیز رفتاری سے روانہ ہو کر اسیروں اور ان کے محافظ دستے کو پیچھے چھوڑ کر مدینہ کی طرف روانہ ہوئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے ایک دن بعد قیدی بھی مدینے میں پہنچ گئے۔ اسیران جنگ کے حسن سلوک کی تاکید: قیدی جب مدینہ پہنچ گئے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو صحابہ کرام رضی اللہ عنہم میں تقسیم فرما کر حکم دیا کہ ان کے ساتھ نیک سلوک کرنا، ان قیدیوں میں ایک شخص ابو عزیز بن عمیر بھی تھا جو لشکر کفار کا علمبردار اور سیّدنا مصعب بن عمیر رضی اللہ عنہ کا حقیقی بھائی تھا، ابوعزیز کا بیان ہے کہ جب مجھے بدر سے گرفتارکر کے مدینے کی طرف لا رہے تھے تو میں انصاریوں کی ایک جماعت کے زیر حراست تھا، یہ انصاری جب کھانا کھانے بیٹھتے تو روٹی مجھے دیتے اورکھجوریں کھا کر گزارہ کر لیتے، میں شرما کر روٹی ان میں سے کسی کو دیتا تو وہ پھر مجھی کو واپس کر دیتا۔مدینہ میں پہنچ کر ابوعزیز، ابی یسر رضی اللہ عنہ انصاری کے حصے میں آیا، سیّدنا مصعب بن عمیر رضی اللہ عنہ ابی یسر رضی اللہ عنہ ، انصاری سے کہنے لگے کہ اس کو خوب حفاظت سے رکھنا اور اس پر سختی کرنا کیونکہ اس کی ماں بڑی مالدار ہے اس سے معقول فدیہ ملے گا۔ ابو عزیز نے یہ دیکھ کر کہ میرا حقیقی بھائی میرے محافظ کو سختی کرنے کی تاکید کر رہا ہے کہا کہ بھائی صاحب! کیا آپ میرے لیے یہی خیر خواہی کر رہے ہیں ؟ سیّدنا مصعب رضی اللہ عنہ نے جواب دیا کہ اب تو میرا بھائی نہیں ہے۔ میرا بھائی یہ شخص ہے جو تیری حراست کر رہا ہے، [1] ابوعزیز کی ماں نے چار ہزار درہم بھیج کر ابوعزیز کو رہائی دلوائی، [2]جنگ بدر میں مشرکوں کے شکست پانے کی خبر جب مکہ میں پہنچی تو جس طرح کفار کو رنج و ملال ہوا اسی طرح ان چند مسلمانوں کو جو مکہ میں رہ گئے تھے اور اپنے اسلام کو چھپائے ہوئے تھے بے حد مسرت و خوشی حاصل ہوئی۔ ابولہب کسی وجہ سے اس جنگ میں شریک نہ ہوسکا تھا، اس نے جب مکہ کے تمام بڑے سرداروں کے مقتول اور اہل مکہ کے شکست یاب ہونے کی خبر سنی تو اس کے دل پر ایسا دھکا لگا کہ اس کے سننے سے ایک ہفتہ بعد مر گیا۔[3]
[1] اللہ، اللہ! صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے مثالی ایمان کے کیا کہنے! صحابہ رضی اللہ عنہم کی دینی غیرت اور بے پایاں ایمان کو دیکھ کر قرآن نے یوں گواہی دی ﴿اَشِدَّآئُ عَلَی الْکُفَّارِ رُحَمَآئُ بَیْنَہُمْ﴾ (الفتح : ۴۸/۲۹) اور ڈاکٹر اقبال نے اسے اپنے شعر میں یوں ڈھالا …… ہو حلقہ یاراں تو بریشم کی طرح نرم رزم حق و باطل ہو تو فولاد ہے مومن [2] سیرت ابن ہشام ص ۳۱۶ و ۳۱۷۔ [3] سیرت ابن ہشام ص ۳۱۷ و ۳۱۸۔