کتاب: تاریخ اسلام جلد اول (اکبر شاہ) - صفحہ 177
ہوئے غرق آہن تھا، سیّدنا معاذبن عمرو رضی اللہ عنہ نے موقع پا کر اور اس کے پاؤں کو زرہ سے خالی دیکھ کر تلوار کا ایک ہاتھ اس کی نصف پنڈلی کے قریب ایسا مارا کہ اس کا پاؤں کٹ کر الگ جا پڑا، ابوجہل کے بیٹے عکرمہ بن ابوجہل نے باپ کو زخمی دیکھ کرمعاذ بن عمرو رضی اللہ عنہ پر حملہ کیا اور تلوار کا ایسا ہاتھ مارا کہ سیّدنا معاذ بن عمرو رضی اللہ عنہ کا بایاں ہاتھ مونڈھے کے قریب سے کٹ کر لٹک گیا، صرف ایک تسمہ لگا ہوا باقی رہا، سیّدنا معاذ بن عمرو رضی اللہ عنہ اسی طرح تمام دن لڑتے رہے، لٹکے ہوئے ہاتھ نے جب بہت دق کیا تو اسے پاؤں کے نیچے دبا کرزور سے جھٹکا دے کر الگ کر دیا، [1]اس کے بعد انصار کے ایک دوسرے نو عمر معوذ بن عفراء رضی اللہ عنہ ابوجہل کے قریب پہنچے اور تلوار کی ایک ایسی ضرب لگائی کہ وہ زخمی ہو کر نیم بسمل ہو گیا، [2]جب کفار میدان خالی چھوڑ کر مسلمانوں کے سامنے سے بھاگ گئے اور لشکر اسلام کو فتح حاصل ہو گئی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم دیا کہ ابوجہل کی نسبت تحقیق کرو کہ اس کی لاش میدان میں موجود ہے یا نہیں ، یہ حکم پاتے ہی سیّدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ مقتولین کی لاشیں دیکھنے کو چلے، ابوجہل کو دیکھا کہ نیم مردہ پڑا ہے۔ [3] عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ اس کے سینے پر چڑھ بیٹھے اور کہا کہ اے اللہ کے دشمن دیکھ تجھ کو اللہ تعالیٰ نے کیسا ذلیل کیا، ابوجہل نے پوچھا[4] لڑائی کا نتیجہ کیا ہوا، عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ مسلمانوں کو فتح اور کفار کو ہزمیت ہوئی، یہ کہہ کر عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ جب اس کا سر کاٹنے لگے تو اس نے کہا کہ میری گردن مونڈھے سے ملا کر کاٹنا تاکہ میرا سر دوسرے کٹے ہوئے سروں میں بڑا معلوم ہو اوریہ سمجھا جائے کہ سردار کا سر ہے،[5] سیّدنا عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ اس کا سر کاٹ کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں لائے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاؤں میں ڈال دیا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ابوجہل کا سر دیکھ کر اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کیا، اس لڑائی میں کل چودہ صحابی رضی اللہ عنہ شہید ہوئے جن میں چھ مہاجرین اور آٹھ انصار تھے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے معرکہ جنگ سے فارغ ہو کر
[1] اللہ اکبر! اس ذوق و شوق جہاد کے کیا کہنے! جب تک مسلمانوں میں ایسا ایمانی جذبہ موجود رہا، وہ کفار و مشرکین پر غالب رہے اور جب ان کے ایمان میں کمزوری آتی گئی تو وہ مغلوب ہونا شروع ہو گئے۔ [2] صحیح بخاری، کتاب فرض الخمس، حدیث ۳۱۴۱۔ صحیح مسلم، کتاب الجھاد، باب استحقاق القاتل سلب القتیل۔ [3] صحیح بخاری، کتاب المغازی، حدیث ۳۹۶۱ تا ۳۹۶۲۔ [4] ابوجہل کو جب معلوم ہوا کہ مجھے دو نوجوانوں (معاذ اور معوذ رضی اللہ عنہما ) نے مارا ہے (اس وقت وہ قریب الموت تھا) تو اس نے افسوس کیا کہ کاش! مجھے ایک کسان کے سوا کسی اور نے مارا ہوتا۔ (صحیح بخاری، کتاب المغازی، حدیث ۴۰۲۰) [5] افسوس! ابوجہل بدبخت کا یہی غرور اور فخر و تکبر اسے لے ڈوبا اور وہ راہی جہنم ہوا، فَاعْتَبِرُوْا یَا اُوْلِی الْاَبْصَارْ!