کتاب: تاریخ اسلام جلد اول (اکبر شاہ) - صفحہ 176
اس حکم کو سن کر ابوحذیفہ رضی اللہ عنہ نے کہا کہ یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ میں اپنے بھائی کو قتل کروں اورعباس رضی اللہ عنہ کو چھوڑ دوں اگر عباس رضی اللہ عنہ میرے مقابلہ پر آیا تو میں درگزر نہیں کروں گا، بعد میں حذیفہ رضی اللہ عنہ اپنے ان الفاظ پر بہت پشیمان ہوئے اور ندامت کا اظہار کیا۔[1] مجذربن زیاد رضی اللہ عنہ کا مقابلہ ابوالنجتری سے ہوا تو مجذربن زیاد نے کہا کہ ہم کو حکم ہے تم سے نہ لڑیں ، لہٰذا تم ہمارے سامنے سے ہٹ جاؤ، ابوالنجتری نے اپنے ایک ساتھی کو بچانے کی کوشش کی جس کو مجذر بن زیاد قتل کرنا چاہتے تھے، اس کوشش میں ابوالنجتری مقتول ہوا۔ امیہ بن خلف اور اس کا بیٹا علی بن امیہ دونوں اپنی جان بچانے کے لیے سراسیمہ پھر رہے تھے، امیہ اور عبدالرحمن بن عوف کے درمیان عہد جاہلیت میں دوستی تھی۔ عبدالرحمن بن عوف نے ان کو پریشان دیکھ کر اپنی حفاظت میں لے لیا اور امیہ کا ہاتھ پکڑ کر لے چلے، لیکن سیّدنا بلال رضی اللہ عنہ نے دیکھا تو فوراً آواز دے کر چند انصار کے نوجوانوں کو اپنی طرف متوجہ کیا اور سب نے مل کر امیہ اور علی کو قتل کرنا چاہا، سیّدنا عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ نے ہر چند بچانے کی کوشش کی مگر سیّدنا بلال رضی اللہ عنہ نے ان کی ایک بات نہ مانی اور دونوں باپ بیٹوں کو قتل ہی کر کے چھوڑا۔[2] ایک صحابی رضی اللہ عنہ عمیر بن الحمام انصاری رضی اللہ عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس کھجوریں کھاتے ہوئے آئے اور پوچھا کہ اگر میں کفار سے لڑتا ہوا مارا جاؤں تو فوراً جنت میں چلا جاؤں گا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہاں ، وہ اسی وقت اپنے ہاتھ کی بقیہ کھجوریں پھینک کر اور تلوار کھینچ کر دشمنوں پر جا پڑے اور لڑ کر شہید ہوئے۔[3] جب لڑائی خوب زور شور سے جاری تھی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک مٹی بھر کر خاک اٹھائی اور اس پر کچھ دم کر کے کفار کی طرف پھینک دی، اسی وقت کفار کے لشکر نے بھاگنا شروع کیا، ایک نوعمر انصاری رضی اللہ عنہ سیّدنا معاذ بن عمرو کا مقابلہ اتفاقاً[4] ابوجہل سے ہو گیا، ابوجہل خود اور زرہ وغیرہ پہنے
[1] تاریخ ابن ہشام ص ۳۰۷۔ [2] تاریخ ابن ہشام ص ۳۰۷ و ۳۰۸۔ [3] صحیح مسلم۔ کتاب الامارۃ، باب ثبوت الجنۃ للشھید۔ [4] یہ مقابلہ اتفاقاً نہیں تھا بلکہ معاذ رضی اللہ عنہ تو ابوجہل کی تلاش میں تھے۔ انھی اس بات کا بہت غصہ تھا کہ ابوجہل، جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا جانی دشمن ہے اور ان کو گالیاں بکتا ہے۔ انہوں نے میدان جنگ میں عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ سے ابوجہل کے بارے میں پوچھا۔ عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ نے کہا کہ بھتیجے! اس کو کیا کہو گے؟ معاذ رضی اللہ عنہ نے کہا کہ اسے قتل کروں گا یا خود شہید ہوجاؤں گا۔ ملاحظہ ہو : صحیح بخاری، کتاب فرض الخمس، حدیث ۳۱۴۱۔ صحیح مسلم، کتاب الجھاد، باب استحقاق القاتل سلب القتیل۔