کتاب: تاریخ اسلام جلد اول (اکبر شاہ) - صفحہ 175
خزرج کے، طرفین سے صفوف جنگ آراستہ ہوئیں ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاتھ میں ایک تیر تھا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس کے اشارہ سے تسویہ صفوف فرماتے تھے۔ اس کے بعد لشکر کفار سے رسم عرب کے موافق اوّل عتبہ و شیبہ پسران ربیعہ اور ولید بن عتبہ نکل کر میدان میں آ گئے اور جنگ مبارزت کے لیے للکار کر لشکر اسلام سے اپنے مقابلہ کرنے کے لیے انصار کے تین شخص، عوف رضی اللہ عنہ ، معوذ رضی اللہ عنہ ، پسران عفراء اور عبداللہ بن رواحہ رضی اللہ عنہ نکلے، عتبہ نے کہا، من انتم (تم کون ہو؟) انہوں نے جواب دیا (رھط من الانصار) ’’ہم انصار یعنی اہل مدینہ میں سے ہیں ۔‘‘ عتبہ نے نہایت متکبرانہ انداز اور درشت لہجہ میں کہا مالنا بکم من حاجۃ(ہم کو تم سے لڑنے کی ضرورت نہیں ) پھر چلا کر کہا محمد اخرج الینا اکفاء نامن قومنا، اے محمد صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے مقابلے کے لیے ہماری ذات برادری کے لوگوں کو (یعنی قریش میں سے مہاجرین کو) بھیجو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ سن کر حکم دیا کہ عتبہ کے مقابلہ کو حمزہ بن عبدالمطلب رضی اللہ عنہ اور عتبہ کے بھائی شیبہ کے مقابلے کو عبیدہ بن الحرث اور عتبہ کے بیٹے ولید کے مقابلہ کو علی بن ابی طالب جائیں ، یہ حکم سنتے ہی بلاتامل تینوں صحابی میدان میں نکلے، عتبہ نے ان تینوں کے نام دریافت کیے، حالانکہ وہ ان تینوں کو خوب جانتا تھا، ان کے نام سن کر کہا کہ ہاں تم سے لڑیں گے، مقابلہ شروع ہوا، سیّدنا حمزہ رضی اللہ عنہ اورسیدنا علی رضی اللہ عنہ نے عتبہ اور ولید دونوں باپ بیٹے کو ایک ہی وار میں قتل کر دیا۔ شیبہ اور عبیدہ دونوں نے ایک دوسرے کو زخمی کر دیا، سیّدنا عبیدہ رضی اللہ عنہ زخم بہت کاری لگا جس سے وہ جان بر نہ ہو سکے، یہ دیکھ کر سیّدنا حمزہ، اور سیّدنا علی رضی اللہ عنہ نے بڑھ کر شیبہ کو قتل کر دیا، اور عبیدہ رضی اللہ عنہ کو اٹھا کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں لائے، [1] اس کے بعد کفار کی صفیں حملہ آور ہوئیں ، ادھر سے مسلمانوں نے حرکت کی اور جنگ مغلوبہ شروع ہو گئی، طرفین سے خوب خوب داد مردانگی دی گئی، نتیجہ یہ ہوا کہ کفار اپنے ستر بہادروں کو قتل، اور ستر کو اسیر کرا کر میدان سے بھاگ نکلے، جنگ مغلوبہ شروع ہونے کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایک سائبان کے نیچے کھڑے ہوئے معرکہ جنگ کا نظارہ دیکھ رہے تھے، اور مجاہدین کو مناسب احکام و ہدایات دے رہے تھے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مسلمانوں کو حکم دیا تھا کہ بنو ہاشم کے جو لوگ کفار کے ساتھ آئے ہیں وہ اپنی خوشی سے نہیں آئے ہیں بلکہ مجبوراً ان کو آنا پڑا ہے، اس لیے ان کے ساتھ رعایت کرنی چاہیے، [2]اور عباس بن عبدالمطلب رضی اللہ عنہ کو قتل نہیں کرنا چاہیے، اسی طرح ابوالنجتری کی نسبت درگزر اور رعایت کا حکم دیا تھا۔
[1] انصار کی کل تعداد ۲۴۰ سے زائد تھی جبکہ چھوٹے بڑے سب ملا کر مسلمانوں کی تعداد ۳۱۹ تھی۔ ملاحظہ ہو : صحیح مسلم۔ کتاب الجھاد، باب الامداد فی الملئکۃ۔ [2] تاریخ ابن ہشام ص ۳۰۴ و ۳۰۵۔