کتاب: تاریخ اسلام جلد اول (اکبر شاہ) - صفحہ 174
زیادہ زرہ پوش اور جوان توانا تھے، مسلمان عام طور پر فاقہ زدہ، ناتواں ، اور بیمار و ضعیف تھے، معمولی ہتھیار بھی سب کے پاس پورے نہ تھے، کسی کے پاس تلوار تھی تو نیزہ اور کمان نہ تھی، کسی کے پاس صرف نیزہ تھا تلوار نہ تھی، جب مسلمان جا کر خیمہ زن ہوگئے، تو کفار نے عمیر بن وہب جمحی کو سراغ رساں بنا کر روانہ کیا کہ مسلمانوں کے لشکر کی تعداد معلوم کر کے آئے، عمیر نے جا کر کہا کہ مسلمانوں کی تعداد تین سو دس سے زیادہ نہیں ہے اور ان میں صرف دو سوار ہیں ، کفار کے غرور کا اندازہ اس سے ہوسکتا ہے کہ عتبہ بن ربیعہ نے جب اس قلت تعداد کا حال سنا تو کہا کہ ان تھوڑے سے آدمیوں سے لڑنے کی ضرورت نہیں ، ہم کو بلا جنگ کیے ہوئے واپس ہونا چاہیے، کیونکہ ہماری تعداد زیادہ ہے، لیکن ابوجہل نے مخالفت کی اور کہا ان سب کا خاتمہ ہی کر دینا چاہیے۔[1] آغاز جنگ: بالآخر ۱۷ رمضان المبارک ۲ ہجری کو میدان کارزار گرم ہوا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اوّل اپنے عبادت کے چھوٹے سے چھپر میں گئے اور رو رو کر جناب الٰہی میں دعا کی اور عرض کیا کہ: ((اللھم ان تھلک ھذہ العصابۃ من اھل الایمان الیوم فلا تعبد فی الارض ابدا)) ’’الٰہی! اگر تو نے اس چھوٹی سی جماعت کو ہلاک کر دیا، تو زمین میں تیری عبادت کرنے والا کوئی نہ رہے گا۔‘‘ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دو رکعت نماز پڑھی اس کے بعد آپ پرذرا سی دیر کے لیے یکایک غنودگی طاری ہوئی۔[2] اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم مسکراتے ہوئے باہر نکلے اور فرمایا کہ کفار کی فوج کو شکست ہو گی اور وہ پیٹھ پھیر کر بھاگ جائیں گے: ﴿سَیُہْزَمُ الْجَمْعُ وَ یُوَلُّوْنَ الدُّبُرَ﴾[3] (القمر : ۵۴/۴۵ و ۴۶)رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم دے دیا تھا کہ تم جنگ میں ابتدا نہ کرنا، مسلمانوں میں اسی یا اسی سے دو تین زیادہ مہاجر تھے باقی انصار [4] تھے، انصارمیں ۶۱ قبائل اوس کے آدمی تھے، ۱۷
[1] تاریخ ابن ہشام ، ص ۳۰۳۔ [2] یہ نزول وحی کی علامت تھی۔ [3] صحیح بخاری، کتاب الجھاد، حدیث ۲۹۱۵۔ صحیح مسلم کتاب الجھاد، باب الامداد بالملئکۃ۔ سیرت ابن ہشام ص ۳۰۵ و ۳۰۶۔ [4] ابن ہشام نے ’’سیرت ابن ہشام‘‘ میں جنگ بدر میں شریک ہونے والے تمام انصاری اور مہاجر صحابہ رضی اللہ عنہم کے نام درج کیے ہیں ۔ نیز جو صحابہ رضی اللہ عنہم اس جنگ میں شہید ہوئے یا جو کفار قتل ہو کر جہنم رسید ہوئے یا قید ہوئے، ان سب کے نام مع ان کی خاندانی یا قبائلی نسبتیں تفصیل کے ساتھ تحریر کیے ہیں ۔ ملاحظہ ہو : ص ۳۳۳ تا ۳۵۸۔