کتاب: تاریخ اسلام جلد اول (اکبر شاہ) - صفحہ 173
گئے اور ان میں سے سیّدنا سعد بن معاذ رضی اللہ عنہ کھڑے ہوئے، اور عرض کیا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا روئے سخن شاید ہم لوگوں کی جانب ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ہاں ! سیّدنا سعد رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ کہ ہم آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لائے ہیں ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اللہ تعالیٰ کا رسول یقین کرتے ہیں اور یہ یہ کیسے ممکن ہے کہ اللہ تعالیٰ کا رسول صلی اللہ علیہ وسلم کفار کے مقابلے کو جائے اور ہم گھروں میں بیٹھے رہیں ، یہ کفار تو ہم جیسے آدمی ہی ہیں ہم ان سے کیا ڈریں گے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم اگر ہم کو حکم دیں گے کہ سمندر میں کود پڑو تو ہم بلا دریغ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم کی تعمیل کریں گے۔[1] بے سروسامانی: جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو خوب اطمینان ہو گیا کہ تمام صحابہ رضی اللہ عنہم جنگ اور مقابلہ کے لیے آمادہ ہیں تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے آگے روانگی کا عزم فرمایا، لڑنے اور میدان جنگ میں جانے کے قابل آدمی کل تین سو دس، یا تین سو بارہ، یا تین سو تیرہ تھے، شہر سے باہر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس اسلامی لشکر کی موجودات کی خبر لی تو ان میں تین سو تیرہ میں بعض ایسی چھوٹی عمر کے لڑکے بھی تھے جو میدان جنگ میں جانے کے قابل نہ تھے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو صغر سنی کے سبب واپس جانے کا حکم دیا، ان میں سے بعض نے اصرار کیا اور بمنت اپنے آپ کو لشکر اسلام میں شامل رکھنے کی اجازت حاصل کی۔ اس اسلامی لشکر کے سازو سامان کی یہ حالت تھی کہ صرف دو گھوڑے تھے جن پر سیّدنا زبیر رضی اللہ عنہ اور مقداد رضی اللہ عنہ سوار تھے، ستر اونٹ تھے، ایک ایک اونٹ پر تین تین، چار چار آدمی سوار تھے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جس اونٹ پر سوار تھے اس پر بھی دو تین شخص اور سوار تھے، بعض حضرات پیدل ہی رہے۔ یہ اسلامی لشکر بدر کے مقام پر پہنچا تو دیکھا کہ کفار پہلے سے بلند قطعہ زمین پر قابض و متصرف اور خیمہ زن ہیں ، مسلمانوں کو نشیبی اور ریتلی جگہ ٹھہرنا پڑا، مگر بدر کے چشموں پر مسلمانوں کا قبضہ ہو گیا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم دیا کہ کفار میں جو شخص اس چشمہ سے پانی لینے آئے اس کو نہ روکو اور پانی لینے دو،[2]صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے ایک چھوٹی سی جھونپڑی تیار کر دی تھی،[3] آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس میں عبادت کرتے اور دعائیں مانگتے تھے، صحابہ کرام رضی اللہ عنہم قریشیوں کے مقابلہ میں تعداد کے اعتبار سے تو ایک تہائی تھے اور سامان حرب کے اعتبار سے عشر عشیر بھی نہ تھے، کفار سب سے
[1] صحیح بخاری۔ کتاب المغازی، حدیث ۳۹۵۲۔ (صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کا یہ جذبہ اطاعت و اتباع دیکھ کر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا چہرہ مبارک خوشی سے دمک اٹھتا تھا) [2] تاریخ ابن ہشام، ص ۳۰۲۔ [3] ایضاً، ص ۳۰۱۔