کتاب: تاریخ اسلام جلد اول (اکبر شاہ) - صفحہ 172
ہمراہ تھے، عباس بن عبدالمطلب، عتبہ بن ربیعہ امیہ بن خلف ، نضر بن حارث، ابوجہل بن ہشام وغیرہ کل تیرہ آدمی کھانا کھلانے والے تھے، ابوسفیان کا قافلہ بہ حفاظت مکہ میں پہنچ گیا، مسلمانوں کی جمعیت جو قافلہ والوں کو صرف ڈرانے کے لیے بھیجی گئی تھی واپس مدینہ کی طرف روانہ ہوئی۔ جنگ بدر: ابوسفیان نے ابوجہل کے پاس خبر بھیجی کہ ہم مکہ پہنچ گئے ہیں ، اب واپس چلے آؤ، لیکن ابوجہل اپنے لشکر جرار پر مغرور تھا، اس کو یہ گوارا نہ ہوا کہ ویسے ہی چلا جائے، ابوجہل درحقیقت یہ لشکر صرف قافلہ ہی کی حفاظت کے لیے لے کر نہیں نکلا تھا بلکہ اس سے پیشتر عمروبن حضرمی ایک شخص قریش کا حلیف بعض مسلمانوں کے ہاتھ سے جن کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے رجب کے مہینے میں بطن نخلہ کی طرف بعض حالات کی تحقیق کے لیے بھیجا تھا مارا گیا تھا، قریش نے عمرو بن حضرمی کے قتل کو بہانہ بنا کرجنگ کی تیاری مکمل کر لی تھی اور وہ مدینہ پر حملہ کرنے کے لیے روانہ ہونے ہی والے تھے کہ ضمضم بن عمرو قافلہ والوں کی طرف سے استمداد کے لیے پہنچا اور ابوجہل جو پہلے سے روانگی پر آمادہ تھا روانہ ہو گیا، چنانچہ ابوجہل برابر کوچ و مقام مارتا ہوا مدینہ کی طرف بڑھتا ہوا چلا آیا، قریش کے لشکر کی روانگی کا حال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو معلوم ہوا، اور یہ بھی معلوم ہوا کہ ابوجہل ، عتبہ، شیبہ، ولید ، حنظلہ، عبیدہ، عاصی، حرث، طعیمہ، زمعہ، عقیل، ابوالنجتری مسعود، نبیہ، منبہ، نوفل، سائب اور رفاعہ وغیرہ تمام بڑے بڑے سردار قریش کے اس لشکر میں موجود ہیں ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ خبر سن کر ایک مجلس مشورت منعقد کی اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے فرمایا کہ مکہ نے اپنے جگر گوشے اور منتخب لوگ تمہاری طرف بھیجے ہیں ، ان کا مقابلہ کرنے کے متعلق تمہاری کیا رائے ہے؟ اوّل سیّدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے ان کے بعد سیّدنا عمرفاروق رضی اللہ عنہ نے، ان کے بعد سیّدنا مقداد رضی اللہ عنہ نے نہایت شجاعت و بہادری کے کلمات فرمائے اور کہا کہ ہم ان بنی اسرائیل کی طرح نہیں ہیں ، جنہوں نے سیّدنا موسیٰ علیہ السلام سے کہا تھا: ﴿فَاذْہَبْ اَنْتَ وَ رَبُّکَ فَقَاتِلَآ اِنَّا ھٰہُنَا قٰعِدُوْنَ﴾ (مائدہ : ۵/۲۴) (تو اور تیرا رب دونوں جا کر لڑو ہم تو یہیں بیٹھے تماشا دیکھیں گے) … اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ لوگو! ان کفار سے لڑائی کے بارے میں تمہارا کیا مشورہ ہے، اس دوبارہ فرمانے سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا منشاء یہ تھا کہ انصار کی رائے بھی معلوم ہو، کیونکہ مذکورہ ہرسہ حضرات مہاجرین میں سے تھے، انصار سے جس بات پر بیعت لی گئی تھی وہ یہ تھی کہ مدینہ پر جب بیرونی دشمن حملہ آور ہو گا تو اس سے لڑیں گے، یہ عہد نہیں تھا کہ مدینہ سے باہر نکل کر کسی سے جنگ کریں گے، انصار فوراً اس بات کو سمجھ