کتاب: تاریخ اسلام جلد اول (اکبر شاہ) - صفحہ 171
ہمراہ لے کر اور مکہ سے چل کر مدینہ منورہ کی متصل چراگاہ پر چھاپا مارا اور مسلمانوں کے بہت سے اونٹ پکڑ کر چل دیا، مسلمانوں کو جب اس چھاپہ کا حال معلوم ہوا تو اس کے تعاقب میں مقام سفوان تک گئے، لیکن دشمن نکل چکا تھا مجبوراً لوٹ آئے، [1]یہ مکہ والوں کی طرف سے نہایت صاف اور کھلی ہوئی دھمکی اور جنگ کا اعلان تھا، انہوں نے مدینہ والوں کو یہ بتایا کہ ہم ڈھائی سو میل چل کر تمہارے گھروں میں تمہارے اموال کو لوٹ کر لا سکتے ہیں۔ ادھر دوسری تدبیروں سے بھی وہ غافل نہ تھے۔ انہوں نے ایک طرف عبداللہ بن ابی اور دوسری طرف مدینہ کے یہودیوں سے برابر خط و کتابت جاری کر رکھی تھی اور ان کو اندر ہی اندر مسلمانوں کی مخالفت پر آمادہ کر دیا تھا۔ اسی سال کے ماہ شعبان میں تحویل قبلہ کا حکم اللہ تعالیٰ کی طرف سے نازل ہوا، [2]اور چند ہی روز کے بعد ماہ شعبان بھی ختم نہ ہوا تھا رمضان کے روزے فرض ہو گئے،[3] شروع رمضان میں یہ خبر مدینہ منورہ میں پہنچی کہ مکہ والوں کا ایک قافلہ شام سے آ رہا ہے اور مدینہ کے اطواف میں ہو کر گزرے گا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مکہ والوں پر ایک قسم کا رعب قائم کرنے اور کرز بن جابر کی حملہ آوری کا جواب دینے کے لیے مہاجرین و انصار کی ایک جماعت لے کر روانہ ہوئے کہ مکہ والوں کے قافلہ کو روکیں ، تاکہ ان کو معلوم ہو جائے کہ مدینہ والوں سے بگاڑ کرنا ان کی تجارت کے لیے حد مضر ہے اور ان کی تجارت ملک شام سے منقطع ہو سکتی ہے، یہ جمعیت جنگ کے ارادہ سے روانہ نہیں ہوئی تھی بلکہ اس کا مدعا تخویف و تادیب ہی تھا، اس لیے اس کی روانگی میں جنگی احتیاطیں ملحوظ نہیں رکھی گئیں ، جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ مکہ والوں کا قافلہ مسلمانوں کی اس جمعیت کے روانہ ہونے سے فوراً مطلع اور باخبر ہو گیا۔ امیر قافلہ ابوسفیان راستہ سے کترا کر اور بچ کر اپنے قافلہ کو نکال کر لے گیا اور اس نے ضمضم بن عمرو غفاری کو اجرت دے کر راستے ہی سے مکہ کی طرف دوڑا دیا کہ ہم کو مسلمانوں کے حملے کا خطرہ ہے ہماری مدد کرو اور اپنے اموال کو بچاؤ، [4]اس خبر کے پہنچتے ہی ابوجہل مکہ سے قریباً ایک ہزار جرار فوج جس میں سات سو اونٹ اور تین سو گھوڑے تھے لے کر بڑے جوش و خروش کے ساتھ مکہ سے نکلا، یہ تمام لشکر ہر طرح کیل کانٹے سے درست اور سپاہی سب زرہ پوش تھے، گانے والے اور رجز پڑھنے والے بھی
[1] سیرت ابن ہشام، ص ۲۸۸۔ (اس غزوہ کو غزوئہ بدر اولیٰ بھی کہتے ہیں ) [2] صحیح بخاری۔ کتاب الایمان، حدیث ۴۰۔ صحیح مسلم۔ کتاب الصلوٰۃ (صحیح بخاری کے مطابق ماہ رجب میں تحویل قبلہ کا حکم آیا۔) دیکھئے حوالہ مذکورہ۔ [3] صحیح بخاری۔ کتاب الصیام، حدیث ۱۸۹۳۔ [4] صحیح بخاری، کتاب المغازی، حدیث ۴۴۱۸۔ سیرت ابن ہشام، ص ۲۹۲۔