کتاب: تاریخ اسلام جلد اول (اکبر شاہ) - صفحہ 170
ہجرت کا دوسرا سال قریش رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے مکہ سے صحیح سالم تشریف لے آنے کے بعد اپنے آپ کو شکست خوردہ سمجھنے لگے تھے اور ان کی تمام کوششیں ، تمام جوش و خروش اور تمام خواہشات مسلمانوں سے انتقام لینے کے لیے صرف ہونے لگیں ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور مسلمانوں کو تباہ و قتل کرنے کا اہتمام تمام قریش مکہ کا سب سے زیادہ اہم، سب سے زیادہ ضروری اور مقدم کام تھا، اس کام کی اہمیت ان کے لیے تمام کاموں اور مشغلوں پر غالب آگئی تھی، اس لیے ان کی آپس کی رقابتیں اور معمولی مخالفتیں بھی سب دور ہو کر ساری قوم اپنی تمام طاقتیں اسی ایک کام پر صرف کر دینے پر آمادہ و مستعد ہو گئی تھیں ، مکہ اور مدینہ کے درمیان قریباً تین سو میل کا فاصلہ تھا، مدینہ پر چڑھائی کرنے کے لیے خاص اہتمام اور جنگی تیاریوں کی بھی ضرورت تھی، راستے کے قبائل اور ملک عرب کی دوسری قوموں کو بھی اس کام کی طرف متوجہ کرنا یا کم از کم اپنا ہمدرد بنا لینا ضروری تھا۔ اس آنے والے خطرے کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایک ذی ہوش سردار اور مآل اندیش سپہ سالار کی حیثیت سے محسوس فرما چکے تھے، اللہ تعالیٰ کی طرف سے حفاظت خود اختیاری اور مدافعت کی اجازت مل چکی تھی … دین اسلام کی اشاعت اور دین اسلام میں داخل ہونے والوں کے راستے کی بے جا رکاوٹیں دور کر دینا بھی لازمی امر تھا، مسلمانوں کی جمعیت مدینہ منورہ میں تین چار سو مردوں سے زیادہ نہ تھی، مسلمان اگرچہ تعداد اور سامان کے اعتبار سے بہت ہی کم اور ضعیف تھے، مگر کفار کی شرارتیں اور مظالم دیکھ دیکھ کر ان کی عربی حمیت و شجاعت جوش میں آتی تھی اور وہ بار بار کفار کا مقابلہ کرنے اور شمشیر و تیر سے جواب دینے کی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اجازت چاہتے تھے۔ اب جب کہ اسلام کی صداقت اور ایمان کی طاقت پورے طور پر ثابت ہو گئی اور مسلمانوں نے روح فرسا مصائب برداشت کر کے دنیا کے سامنے یہ ثبوت بہم پہنچا دیا کہ اسلام کے ساتھ عش و شیفتگی کسی خوف یا لالچ سے تعلق نہیں رکھتی تو اللہ تعالیٰ کی طرف سے شریروں کو سزا دینے اور اپنی حفاظت آپ کرنے کی اجازت آگئی، تاہم واقعات کے تسلسل پر نظر کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیشہ جنگ پر صلح کو اور انتقام پر درگزر ہی کو ترجیح دی، کفار مکہ کے ایک سردار کرز بن جابر نے ایک جماعت کو