کتاب: تاریخ اسلام جلد اول (اکبر شاہ) - صفحہ 167
مدینہ کا افسر اعلیٰ یا بادشاہ بنا لیں اور ایک عظیم الشان جلسہ ترتیب دے کر اس میں باقاعدہ طور پر عبداللہ بن ابی کی سرداری کا اعلان کر دیں ، یہاں تک کہ عبداللہ بن ابی کے لیے ایک تاج بھی بنوا لیا گیا تھا۔ اسی دوران میں مدینہ کے اندر اسلام اور بانی اسلام داخل ہوئے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے مدینہ منورہ تشریف لے جانے کے بعد مدینہ میں مسلمان سب سے بڑی طاقت سمجھے جانے لگے اور بالآخر مسلمانوں کی فوقیت و افسری کو مذکورہ بالا عہد نامہ پر دستخط کر کے سب نے تسلیم کر لیا، اس کا لازمی نتیجہ یہ برآمد ہوا کہ عبداللہ بن ابی ابن سلول کی تمام امیدوں پر پانی پھر گیا اور اس کی بادشاہت و سرداری خاک میں مل گئی، چونکہ وہ بڑا چالاک و ہوشیار آدمی تھا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اگرچہ اپنا رقیب اور دشمن سمجھتا تھا لیکن اس دشمنی کے اظہار کو غیر مفید سمجھ کر اپنے دل میں چھپائے ہوئے تھا، قبائل اوس اور قبائل خزرج میں جو لوگ ابھی بت پرست تھے وہ سب عبداللہ بن ابی کے زیر اثر تھے۔ قریش مکہ کو جب معلوم ہوا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور ان کے رفقاء مدینہ میں پہنچ کر اطمینان کی زندگی بسر کرنے لگے اور مذہب اسلام کا دائرہ روز بروز وسیع ہو رہا ہے تو انہوں نے سب سے پہلی شرارت اور شیطانی سازش یہ کی کہ عبداللہ بن ابی اور مشرکین مدینہ کے پاس ایک تہدید آمیز پیغام بھیجا کہ تم نے ہمارے آدمی کو ہماری مرضی کے خلاف اپنے یہاں ٹھہرا لیا ہے، مناسب یہ ہے کہ تم اس سے لڑو اور اپنے شہر سے نکال دو، اگر تم نے ایسا نہ کیا تو ہم پورے سازو سامان کے ساتھ مدینہ پر حملہ کریں گے، تمہارے جوانوں کو قتل کر دیں گے، تمہاری عورتوں پرمتصرف ہو جائیں گے۔ اس پیغام کے پہنچنے پر عبداللہ بن ابی نے تمام مشرکوں کو جمع کیا اور مکہ والوں کے اس پیغام سے مطلع کر کے سب کو لڑائی پر آمادہ کر دیا، اتفاقاً رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اس مجلس اور اس سازش کا حال معلوم ہوا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم فوراً اس مجمع میں تشریف لے گئے اور لوگوں کو مخاطب کر کے کہا کہ: قریش مکہ نے تم کو دھوکا دینا چاہا ہے، اگر تم ان کی دھمکی اور دھوکے میں آگئے تو بہت نقصان اٹھاؤ گے، تمہارے لیے بہتر یہ ہے کہ تم ان کو صاف جواب دے دو، اور اپنے عہد و اقرار پر جو ہمارے ساتھ ہو چکا ہے قائم رہو، اگر قریش نے مدینہ پر حملہ کیا تو ہم کو ان کا مقابلہ کرنا اور ان سے لڑنا بہت آسان ہو گا، کیونکہ ہم سب متفقہ طور پر ان کے سامنے آئیں گے، لیکن اگر تم مسلمانوں سے لڑے تو اپنے ہی ہاتھوں سے اپنے بیٹوں بھائیوں اور رشتہ داروں کو قتل کرو گے اور برباد ہو جاؤ گے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ بات سن کر تمام مجمع نے تائید کی اور اسی وقت تمام مجمع منتشر ہو گیا، عبداللہ