کتاب: تاریخ اسلام جلد اول (اکبر شاہ) - صفحہ 166
ایک شرط تھی کہ باشندگان مدینہ میں کوئی دو فریق کسی بات پر آپس میں جھگڑیں اور خود نہ سلجھ سکیں تو اس کا ناطق فیصلہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم صادر فرمائیں گے جس سے کسی کو انحراف و انکار نہ ہوگا، نیز یہ شرائط بھی تھیں کہ جنگ کے مصارف اور فوائد میں تمام باشندگان مدینہ بحصہ مساوی شریک ہوں گے، جن قبیلوں یا قوموں سے مدینہ کے یہودیوں کا معاہدہ ہے اور وہ یہود ان مدینہ کے دوست ہیں ، مسلمان مدینہ بھی ان کو اپنا دوست سمجھیں گے، اور دوستوں کی طرح ان کی رعایت کریں گے، اسی طرح جو قبیلے مسلمانوں کے دوست ہیں مدینہ کے یہودی بھی ان کے ساتھ دوستانہ سلوک کریں گے، مدینہ کے اندر کشت و خون کرنا حرام سمجھا جائے گا، مظلوم کی امداد سب پر فرض ہو گی وغیرہ۔[1] اس معاہدہ کی تکمیل کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کوشش فرمائی کہ مدینہ کے ارد گرد کے علاقوں میں رہنے والے قبیلوں کو بھی اس معاہدہ میں شامل کیا جائے، تاکہ بدامنی اور آئے دن کی خون ریزی کا کلی استیصال ہو جائے، چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مقام ودان تک جو مکہ و مدینہ کے درمیان ہے اسی غرض کے لیے سفر فرمایا اور قبیلہ بنی ضمرہ بن بکر بن عبدمناف کو اس معاہدہ میں شریک فرما کر ان کے سردار عمروبن مخشی سے دستخط کرائے، کوہ بواط کے لوگوں کو بھی شریک معاہدہ کیا۔ ینبوع کی طرف مقام ذی العشیرۃ میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لے گئے اور بنو مدلج سے بھی اس معاہدہ پر دستخط کرائے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مدینہ منورہ پہنچتے ہی ایسی کوششیں اختیار کیں کہ امن وامان اور رفاہ خلائق کو ترقی ہو اور لوگ دین اسلام کو اچھی طرح اطمینان سے سمجھنے کا موقع پائیں ، ابھی یہ کوشش شروع ہی تھیں اور مدینہ کے تمام نواحی قبائل پوری طرح شریک معاہدہ نہ ہونے پائے تھے کہ مدینہ کے اندر خفیہ اور مدینہ کے باہر سے علانیہ دشمنوں نے حملے شروع کر دیئے۔ منافقت کی ابتدا: مدینہ میں ایک شخص عبداللہ بن ابی ابن سلول بہت عقل مند تجربہ کار ہوشیاراور چالاک شخص تھا، اوس اور خزرج کے تمام قبائل پر اس کا اثر تھا، لوگ اس کی سرداری کو متفقہ طور پر تسلیم کرتے تھے، قبائل اوس و خزرج چند روز بیشتر جنگ بعاث میں ایک دوسرے کے مقابل صف آراء ہو کر اور اپنے بہت سے بہادروں کو قتل کرا کر کمزور ہو چکے تھے، عبداللہ بن ابی نے اس حالت سے فائدہ اٹھانے اور دونوں قوموں میں اپنی قبولیت کے بڑھانے میں کوتاہی نہیں کی، مدینہ والے ارادہ کر رہے تھے کہ عبداللہ بن ابی کو تمام
[1] سیرت ابن ہشام، ص ۲۵۱ تا ۲۵۶۔