کتاب: تاریخ اسلام جلد اول (اکبر شاہ) - صفحہ 164
ہجرت کا پہلا سال ہجرت کے پہلے سال میں جو واقعات رونما ہوئے ان میں مسجد نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کی تعمیر، مکان نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کی تعمیر، بعض رہے ہوئے مومنوں کا مدینہ آ جانا وغیرہ اوپر مذکور ہو چکے ہیں ، اسی ذیل میں سیّدنا ابوامامہ اسعد بن زرارہ رضی اللہ عنہ کی وفات بھی قابل تذکرہ ہے، سیّدنا ابوامامہ رضی اللہ عنہ پہلے سے بیمار نہ تھے، اچانک ان پر کسی مرض کا ایسا حملہ ہوا کہ فوت ہو گئے، یہ خبر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو پہنچی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ مشرکوں کو یہ کہنے کا موقع ملے گا کہ یہ کیسا رسول ہے کہ اس کے دوستوں میں سے ایک شخص اس طرح اچانک فوت ہو گیا، ان کی وفات کے بعد قبیلہ بنو نجار کے لوگ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کیاکہ ابو امامہ رضی اللہ عنہ ہمارا سردار تھا، اب اس کی وفات کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس کا قائم مقام کوئی شخص ہم میں سے سردار مقرر فرما دیں ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تم بنو نجار میرے ماموں ہو اس لیے میں بھی تم میں شامل ہوں اور میں خود تمہارا نقیب (سردار) ہوں ۔ بنو نجار یہ سن کر باغ باغ ہو گئے اور یہ اندیشہ بھی دور ہو گیا کہ اگر کسی شخص کو ان میں سے سردار مقرر کیا جاتا تو انھی میں سے دوسرے اشخاص جن کو اپنی سرداری کی توقع ہوتی اس کے رقیب بن جاتے اور قبیلہ کا باہمی اتفاق چند روز کے لیے کسی قدر کمزور ہو جاتا، اس طرح اس قبیلہ کی ہمت اور باہمی اتفاق میں پہلے سے بھی زیادہ اضافہ ہو گیا۔[1] رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مدینہ میں پہنچ کر سب سے پہلے جس چیز کی طرف خصوصی توجہ اور کوشش صرف فرمائی وہ شہر کا امن و امان اور باشندوں کے تعلقات باہمی کا خوش گوار بنانا تھا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس بات کو جاتے ہی محسوس فرمایا کہ مہاجرین کی جماعت مکہ سے آئی ہے وہ اہل مدینہ کے لیے باعث اذیت اور موجب پیچیدگی نہ ہونے پائے، ساتھ ہی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ بھی خیال تھا کہ مہاجرین جنہوں نے دین کی خاطر انتہائی تکلیفیں برداشت کی ہیں اور اپنے گھر، وطن، عزیز و اقارب، مال و زر، خاندان و برادری سب کو چھوڑ کر مدینہ میں آپڑے ہیں اور زیادہ پریشان دول شکستہ نہ ہوں ، چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے تمام انصار و مہاجرین کو ایک جلسہ میں جمع کر کے اخوت اسلامی کا وعظ فرمایا اور مسلمانوں کے اندر
[1] تاریخ ابن ہشام ، ص ۲۵۷۔