کتاب: تاریخ اسلام جلد اول (اکبر شاہ) - صفحہ 161
((دعوھا فانھا مامورۃ)) اس کے بعد اونٹنی قبیلہ بنو الحارث بن الخزرج کے محلہ میں پہنچی، یہاں سعد بن الربیع، خارجہ بن زید، عبداللہ بن رواحہ نے روکنا چاہا، ان کو بھی وہی حکم ملا، وہاں سے روانہ ہو کر ناقہ بنو عدی بن النجار کے محلہ میں پہنچی، ان لوگوں میں چونکہ عبدالمطلب کی ننھیال تھی اس لیے ان کو بڑا دعویٰ تھا کہ عبدالمطلب کی ماں سلمیٰ بنت عمرو ہمارے قبیلہ کی لڑکی تھی لہٰذا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہم میں قیام فرمائیں گے، چنانچہ سلیط بن قیس رضی اللہ عنہ اور اسیرۃ بن ابی خارجہ رضی اللہ عنہ سردار بنو عدی نے آگے بڑھ کر ناقہ کی مہار پکڑی ، ان کو بھی وہی جواب ملا کہ ناقہ کا راستہ چھوڑ دو اس کو اللہ تعالیٰ کا حکم ملا ہوا ہے۔ یہاں تک کہ ناقہ بنو مالک بن النجار کے محلہ میں جا کر ایک غیر آباد افتادہ زمین میں بیٹھ گئی اورفوراً پھر کھڑی ہو گئی، کھڑی ہو کر پھر کچھ دور تک چلی، چل کر خود بخود پھر لوٹی اور ٹھیک اسی جگہ جہاں پہلے بیٹھی تھی واپس آئی اور بیٹھ گئی، اب کی مرتبہ اونٹنی نے بیٹھ کر جھرجھری لی، گردن نیچے ڈال دی، اور دم ہلانے لگی، آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس پر سے اتر آئے۔ اس افتادہ زمین کے قریب سیّدنا ابو ایوب خالد بن زید انصاری رضی اللہ عنہ کا مکان تھا، وہ خوشی خوشی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا اسباب اٹھا کر اپنے مکان میں لے گئے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انھی کے یہاں قیام فرمایا۔ یہ افتادہ زمین سہل و سہیل دو یتیم لڑکوں کی ملکیت تھی، جس میں چند درخت کھجور کے کھڑے تھے، اور چند قبریں مشرکین کی تھیں اور چار پایوں کا ایک ریوڑ بھی اس جگہ آکر بیٹھا کرتا تھا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دریافت فرمایا کہ یہ جگہ کس کی ملکیت ہے، معاذ بن عفراء نے عرض کیا کہ میرے رشتہ دار دو یتیم لڑکے اس زمین کے مالک ہیں اور میرے ہی پاس پرورش پا رہے ہیں ، میں ان کو رضا مند کر لوں گا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم یہاں شوق سے مسجد بنائیں ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہم اس کو قیمتاً خریدنا چاہتے ہیں ، بلا قیمت نہ لیں گے۔ چنانچہ سیّدنا ابوبکرصدیق رضی اللہ عنہ نے اسی وقت اس زمین کی قیمت ادا کر دی، اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم کے موافق کھجور کے درخت کاٹ دیئے گئے، مشرکین کی قبریں ہموار کر دیں گئیں اور مسجد کی تعمیر کا کام شروع ہو گیا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بہ نفس نفیس خود مسجد کی تعمیر کے کام میں مصروف ہوتے تھے، مہاجرین و انصار بڑی خوشی اور جوش و شوق کے ساتھ اس کام میں لگے رہتے تھے، مسجد کی دیواریں اینٹ اور گارے سے بنائی گئیں ، چھت کھجور کی لکڑی اور کھجور کے پتوں سے بنائی گئی۔ جب تک مسجد اور اس کے قریب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے مکان تیار ہوا، اس وقت تک رسول