کتاب: تاریخ اسلام جلد اول (اکبر شاہ) - صفحہ 159
سامان تو یہ آ پہنچا ہے۔‘‘ یہ آواز سنتے ہی لوگ اپنے گھروں سے نکل پڑے اور تمام قبا میں جوش مسرت کا ایک شور مچ گیا، انصار نے دیکھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کھجوروں کے ایک باغ کی طرف سے آ رہے ہیں ۔ سیّدنا ابوبکرصدیق رضی اللہ عنہ نے یہ خیال فرما کر کہ لوگوں کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پہچاننے میں شبہ نہ ہو کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کون سے ہیں فوراً آپ کے پیچھے آ کر اپنی چادر سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اوپر سایہ کیا جس سے آقا اور خادم کی تمیز بآسانی ہونے لگی…۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم قبا میں داخل ہوئے، [1]انصار کی چھوٹی چھوٹی لڑکیاں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے داخل ہونے کے وقت جوش مسرت میں یہ پڑھ رہی تھیں : طلع البدر علینا من ثنیات الوداع وجب الشکر علینا مادعاللہ داع ایھا المبعوث فینا جئت بالامر المطاع [2] ’’ہم پر بدر نے ثنیات[3] الوداع سے طلوع کیا۔جب تک کوئی دعا کرنے والا ہے، ہم پر شکر کرنا واجب ہے۔اے ہم میں مبعوث ہونے والے نبی! آپ صلی اللہ علیہ وسلم ایسا حکم لے کر آئے ہیں کہ اس کی اطاعت ضروری ہے۔‘‘ آپ صلی اللہ علیہ وسلم قبا میں دو شنبہ کے روز داخل ہوئے اور جمعہ تک یہیں مقیم رہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کلثوم بن ہدم کے مکان میں اور سیّدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ حبیب بن اساف رضی اللہ عنہ کے مکان میں فروکش ہوئے۔ سعد بن خیثمہ رضی اللہ عنہ کے مکان میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم مجلس فرماتے، یعنی سعد بن خیثمہ رضی اللہ عنہ کے مکان میں لوگ آ آ کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی زیارت کرتے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی گرد جمع رہتے تھے، قبا میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انھی چند ایام کے اندر ایک مسجد کی بنیاد رکھی اور یہ سب سے پہلی مسجد تھی جو اسلام میں بنائی گئی، اس کے بعد ۱۲ ربیع الاول جمعہ کے روز آپ صلی اللہ علیہ وسلم قبا سے روانہ ہو کر مدینہ میں داخل ہوئے۔ ابھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم قبا ہی میں فروکش تھے کہ سیّدنا علی کرم اللہ وجہہ، بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں پہنچ گئے۔ سیّدنا علی رضی اللہ عنہ نے یہ سفر مکہ سے مدینہ تک پیدل طے کیا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم جب تک غار ثور میں
[1] صحیح بخاری۔ کتاب مناقب الانصار، حدیث ۳۹۰۶۔ سیرت ابن ہشام ص ۲۴۶۔ [2] یہ اشعار قبا جو مدینہ کی نواحی بستی تھی، اس میں جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے داخلہ کے موقع پر پڑھے گئے تھے۔ ملاحظہ ہو: رحمۃللعالمین ۱/۱۴۰۔ [3] ثنیات الوداع کے معنی ہیں رخصت کی گھاٹیاں ، اہل مدینہ جب کسی کو مکہ کی طرف روانہ کرتے تو ان گھاٹیوں تک اس کے ساتھ الوداعی کہتے آتے، اسی لیے ان کا نام ثنیات الوداع مشہور تھا۔