کتاب: تاریخ اسلام جلد اول (اکبر شاہ) - صفحہ 158
گیا، وہاں قبیلہ اسلم کے ایک شخص اوس بن حجر سے ایک اونٹ لیا، اوس بن حجر نے اپنا ایک غلام بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ کر دیا، وہاں سے یہ قافلہ ثنیۃ العائر کا راستہ طے کرتا ہوا وادی ریم میں پہنچا، وادی ریم سے چل کر دوپہر کے وقت قبا کے قریب پہنچ گئے۔[1] سیدنا زبیر بن عوام رضی اللہ عنہ شام کے سفر سے تجارتی قافلہ لیے ہوئے مکہ کو واپس آتے ہوئے راستہ میں ملے، زبیر بن عوام رضی اللہ عنہ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں کپڑے، یعنی لباس پیش کیا کہ میں بھی مکہ پہنچ کر جلد مدینہ پہنچتا ہوں ۔اس سفر میں جہاں جہاں لوگ ملتے تھے، سیّدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کو پہچان لیتے تھے کیونکہ تجارت پیشہ ہونے کے سبب اکثر آتے جاتے رہتے تھے، لیکن آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم سے لوگ واقف نہ تھے، اس لیے سیّدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ ان کو جواب دیتے کہ (ھذا یھدینی السبیل) ’’یہ میرا رہبر و ہادی طریق ہے۔‘‘ [2] اختتام سفر: آٹھ روز کے سفر کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ۸ ربیع الاول ۱۴ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کو دوپہر کے وقت قبا کے قریب پہنچے، قبا مدینہ سے چند میل کے فاصلہ پر ہے اور وہ مدینہ کا ایک محلہ ہی سمجھا جاتا تھا، وہاں قبیلہ بنی عمرو بن عوف کے لوگ بکثرت آباد تھے اور روشنی اسلام سے منور ہو چکے تھے، مکہ سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی روانگی کی خبر کئی روز پہلے مدینہ میں پہنچ چکی تھی، اس لیے انصار مدینہ روزانہ صبح سے دوپہر تک بستی سے باہر نکل کر آپ کے انتظار میں کھڑے رہتے تھے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم دور سے تشریف لاتے ہوئے نظر آئیں گے، جب دھوپ خوب تیز اور ناقابل برداشت ہو جاتی تو واپس اپنے گھروں میں آ جاتے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم چونکہ قبا کے نزدیک دوپہر کے وقت پہنچے لہٰذا قبا والے مشتاقین اسی وقت انتظار کرتے کرتے اپنے گھروں میں واپس آ گئے تھے۔ ایک یہودی جو روزانہ مسلمانوں کے جم غفیر کو اس طرح بستی سے باہر انتظار کرتے ہوئے دیکھتا اور جانتا تھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مکہ سے آنے والے ہیں جن کا ان لوگوں کو انتظار ہے۔ وہ اتفاقاً اس وقت اپنی گڑھی یا مکان کی چھت پر چڑھا ہوا تھا، اس نے دور سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اس مختصر قافلہ کو آتے ہوئے دیکھ کر گمان کیا کہ یہی وہ قافلہ ہے جس میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لا رہے ہیں ، چنانچہ اس نے زور سے آواز دی کہ : ’’یا معشر العرب، یا بنی قیلہ، ھذا جدکم قدجاء۔‘‘ ’’اے گروہ عرب اے دوپہر کو آرام کرنے والو! تمہارا مطلوب یا تمہاری خوش نصیبی کا
[1] سیرت ابن ہشام ص ۲۴۵۔ [2] صحیح بخاری۔ کتاب مناقب الانصار، حدیث ۳۹۱۱۔