کتاب: تاریخ اسلام جلد اول (اکبر شاہ) - صفحہ 157
ورنہ سو اونٹ کا انعام مجھ کو نہ مل سکے گا، تھوڑی دیر بعد سراقہ اٹھا اور اپنے گھر آیا، گھوڑا اور ہتھیار چپکے سے شہر کے باہر بھجوا دیئے اور خود بھی لوگوں کی نگاہ سے بچتا ہوا باہر پہنچا، مسلح ہو کر گھوڑے پر سوار ہوا اور اونٹوں کے نقش قدم پر نہایت تیز رفتاری سے روانہ ہوا، چند ہی قدم چلنے پایا تھا کہ گھوڑے نے سکندری کھائی اور سراقہ نیچے گر پڑا، پھر سوار ہوا اور چل دیا، اس کو توقع تھی کہ میں محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو گرفتار یا قتل کر کے سو اونٹ انعام میں حاصل کر سکوں گا۔ جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے رفقاء کے اونٹ سامنے نظر آنے لگے تو اس کے گھوڑے نے پھر ٹھوکر کھائی، سراقہ پشت زین سے زمین پر گرا اور اٹھ کر پھر سوار ہوا اور چلا۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی سواری کے بالکل قریب پہنچ کر اس کا گھوڑے کے پاؤں گھٹنوں تک زمین میں دھنس گئے اور سراقہ پھر زمین پر آ رہا، یہ حالت دیکھ کر وہ خوف زدہ ہوا اور سمجھا کہ میں ان پر ہاتھ نہیں ڈال سکتا، چنانچہ اس نے خود آواز دے کر آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم سے ذرا ٹھہرنے اور ایک بات سن لینے کی درخواست کی، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سواری کو روک دیا، سراقہ نے کہا میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو گرفتار کرنے آیا تھا لیکن اب میں واپس جاتا ہوں ، اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے معافی مانگتا ہوں ، مجھ کو ایک امان نامہ لکھ دیجئے اور معاف کر دیجئے میں واپسی میں دوسرے لوگوں کو بھی جو میرے پیچھے اسی غرض سے آ رہے ہوں گے واپس لے جاؤں گا۔چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم سے سیّدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے یا ان کے خادم عامر بن فہیرہ رضی اللہ عنہ نے اونٹ پر بیٹھے ہی بیٹھے ایک تحریر لکھ کر اس کی طرف ڈال دی، اور وہ اس تحریر کو لے کر واپس روانہ ہوا، راستہ میں اس کو اور بھی لوگ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے تعاقب میں آتے ہوئے ملے، وہ سب کو یہ کہہ کر کہ اس طرف کہیں سراغ نہیں ملا واپس لے گیا۔[1] سراقہ فتح مکہ کے بعد مسلمان ہو گیا اور اسی تحریر کو اس نے فتح مکہ کے روز اپنے لیے دستاویز امان بنایا۔[2] غار ثور یعنی نشیبی مکہ سے روانہ ہو کر عبداللہ بن اریقط آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو ساحل سمندر کی جانب لے کر چلا، مقام عسفان سے ادھر تھوڑی دور عام راستہ طے کر کے مقام امج کے زیریں جانب مقام قدید تک سفر کرتا رہا، پھر شارع عام کو کاٹ کر خرار کے میدان میں قطع مسافت کرتا رہا، ثنیتہ المرہ، لقف، مدلجہ اور مجاج وغیرہ مقامات میں ہوتا ہوا ذوالغضوین کے علاقہ کو طے کر کے ذی سلم کے صحرا میں ہوتا ہوا العبابید، العرج کے مقامات سے گزرا، العرج کی نشیبی وادی میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اس قافلہ کا ایک اونٹ چلتے چلتے تھک
[1] صحیح بخاری۔ کتاب مناقب الانصار، حدیث ۳۹۰۶۔ صحیح مسلم۔ کتاب الزھد، باب حدیث الہجرۃ۔ [2] سیرت ابن ہشام، ص ۲۴۵۔